جب توقع ہی اٹھ گئی غالب…
ایم ودود ساجد
چیف جسٹس صاحب! آپ کے پاس ہنگامی طورپر مدد مانگنے کوئی کمزور کب جاتا ہے؟ اُسی وقت نا جب وہ اپنے سے زیادہ طاقتور کی زیادتیوں کا شکار ہوجاتا ہے اور جب اسے کسی طرف سے انصاف کے حصول کی کوئی امید نہیں رہ جاتی؟
ایسے میں آپ کا کیا فرض منصبی ہے چیف صاحب! کیا یہ آپ کا فرض منصبی نہیں ہے کہ آپ فی الفور اس کی داد رسی کریں‘اس کی شکایت سن کر اس کا ازالہ کریں اور جس کی شکایت کی گئی ہے اسے اپنے روبرو بلاکر اس کی سرزنش کریں۔۔۔۔؟ مد دکے خواستگار مظلوموں کی مدد کریں اورسرکشی پر آمادہ ظالموں کے ہاتھ پکڑیں۔۔۔۔؟
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اگر یہ کام آپ کا نہیں ہے تو پھر یہ کام کس کا ہے۔۔۔۔؟ اگر یہ کام عدلیہ کا نہیں ہے تو پھر طاقتور کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے کون روکے گا۔۔۔۔؟ اور اگر آپ نہیں روکیں گے تو پھر ان عدالتوں کا کام کیا رہ جائے گا؟
چیف صاحب! مسلح اہلکاروں کے ہاتھوں لُٹ پِٹ کرجب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نہتے طلبہ آپ کے سامنے انصاف کے طالب بن کر پہنچے تو آپ نے اُس دن ان کو سنا ہی نہیں۔۔۔۔ دو روز بعد بلایا تو کوئی راحت نہیں دی۔۔۔۔۔ ملک کے حالات جانتے ہوئے بھی آپ نے ان کو اپنے سے کم طاقتور عدالت کے حوالہ کردیا۔۔۔۔ آپ کی طاقت کو پورا ملک جانتا ہے۔۔۔ آپ نے اچھے اچھوں کی عقل ٹھکانے لگادی ہے۔۔۔ وہ منظر تو بہت تازہ ہے جب آلودگی کے معاملے میں سپریم کورٹ نے دہلی’ پنجاب اور ہریانہ کے چیف سیکرٹریز کو کھڑے کھڑے جیل بھیج دینے کی دھمکی دے ڈالی تھی اور وہ کانپ اٹھے تھے۔۔۔۔ جامعہ کے طلبہ پر ظلم کا معاملہ تو آلودگی سے کہیں بڑا تھا چیف صاحب۔۔۔۔
عرضی گزاروں کی اس دلیل میں بڑا وزن تھا کہ پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے اور کئی ریاستوں میں پُر امن مظاہرین پر فورسز کی زیادتیاں جاری ہیں۔ایسے میں آپ ہنگامی فیصلہ صادر کرسکتے تھے۔لیکن آپ نے نہیں کیا۔۔۔۔ایسی غیر معمولی صورت حال کبھی کبھی آتی ہے حضور! آپ کو انصاف کے طالب مظلوم بچوں کو اپنے سے کم طاقتور عدالت کے حوالہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔۔۔
لیکن قانونی موشگافیوں کے حوالہ سے ایک راستہ یہ بھی تھا جو آپ نے اختیار کیا۔۔۔۔۔59 عرضی گزار دہلی کے چیف صاحب کی بارگاہ میں پہنچے۔۔۔۔یہاں دو نشستوں میں کئی گھنٹوں کی بحث ہوئی۔۔۔۔مگر یہاں چیف صاحب نے لب کشائی ہی نہیں کی۔انہوں نے نہتے طلبہ کی وہ چیخ وپکار نہیں سنی جو ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر اقوام عالم تک پہنچ گئی ہے اور جس نے سب کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔وکیل اندراجے سنگھ نے کوشش کی کہ وہ کم سے کم وہ ویڈیوز ہی دیکھ لیں جو پُر امن طلبہ پر پولس کے مظالم کی داستان بیان کر رہی ہیں۔۔۔۔لیکن انہوں نے وہ بھی نہیں دیکھیں۔۔۔۔دیکھ لیتے توکچھ صبر تو آجاتا کہ ایک نگاہِ بے نیازی ہی سہی حضور نے ڈالی تو۔۔۔۔
اتنی بحث کے بعدامیدتھی کہ جو راحت مانگی گئی ہے وہ نہ سہی تو کچھ راحت تو ملے گی ہی۔۔۔۔لیکن عدل وانصاف کے رکھوالوں نے نہ کچھ کہا اور نہ اس کے بعد کچھ سنا۔۔۔۔دہلی اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کردئے گئے اور اگلی سماعت کی تاریخ 5 فروری مقرر کردی گئی۔۔۔۔ ایسا ہنگامی معاملہ اور اتنی لمبی تاریخ ۔۔۔؟
چیف صاحب! متاثرین نے جو مطالبات کئے تھے ان میں سے دو تو ایسے تھے کہ آپ کو انصاف نہ سہی انسانیت کی بنیاد پر غور کرکے راحت دینی چاہئے تھی۔۔۔۔۔متاثرین نے کہا تھا کہ جن طلبہ پر ظلم ہوا ہے ان کے خلاف مزید کارروائی پر روک لگائی جائے اور جو شدید زخمی ہیں ان کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے۔۔۔دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ پولس زیادتیوں پر فوراً روک لگا کر تحقیقات کا حکم دیا جائے۔ کیا واقعی یہ مطالبات ایسے تھے کہ ان پر غور کرنے کے لئے آپ کو ڈیڑھ مہینے کا وقت درکار تھا۔۔۔ اور کیا یہ دو مطالبات فوری اور ہنگامی سماعت اور حکم کے متقاضی نہیں تھے۔۔۔۔؟
چیف صاحب! آپ کی عدالت میں جو فریق اپنی عرضی لے کر پہنچتا ہے وہ حکومت اور اس کی مشینری سے دکھی ہوکر پہنچتا ہے۔۔۔۔۔قانون کی زبان میں وہ مدعی ہوتا ہے۔۔۔۔۔آپ کا فرض منصبی ہے کہ آپ مدعا علیہ کو مزید ظلم کرنے کا وقت نہ دے کر اسے اپنے روبرو طلب کریں۔آپ مدعی اور مدعا علیہ کو دو برابرکے پلڑوں میں نہیں رکھ سکتے۔۔۔۔آپ ان دونوں کو ایک دوسرے کے مساوی مخالف کے زاویہ سے نہیں دیکھ سکتے۔۔۔۔آپ مدعا علیہ کو مدعی جیسا رتبہ نہیں دے سکتے۔۔۔۔ آپ مدعی کو مدعا علیہ کے برابر لاکر کھڑا نہیں کرسکتے۔۔۔۔ مدعا علیہ پر عاید الزامات کی سنگینی کے پیش نظر آپ مدعا علیہ کو راحت پہنچانے والا کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔۔۔۔۔انصاف کا طالب مدعی ہے مدعا علیہ نہیں۔۔۔۔۔ آپ کی عدالت میں فریاد لے کر مدعی آیا ہے۔۔۔ آپ کو ہر حال میں اسے انصاف دینا ہے۔۔۔۔
آپ مدعا علیہ کے ساتھ اس لئے رعایت نہیں کرسکتے کہ وہ حکومت ہے یا طاقتور ہے۔۔۔۔ آپ مدعا علیہ کی خواہش‘اس کی شرائط اور اس کی آسانیوں کے مطابق اپنا رویہ نہیں بدل سکتے۔۔۔۔۔مدعی فریق اول ہوتا ہے جو مدعا علیہ کے مقابلہ میں آپ کی عنایت کا زیادہ مستحق ہے۔۔۔۔مگر یہاں تو آپ نے فطرت اور نظام انصاف کا یہ اصول ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔۔۔۔
چیف جسٹس صاحب! جس وقت دہلی کے چیف صاحب نے انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ عدالت برخاست کی تو بعض ششدر اور حیرت زدہ وکیلوں نے Shame shame کے نعرے لگائے۔آزاد ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے۔۔۔۔وہ صورت کتنی عجیب ہوگی جب صرف وکیل ہی نہیں بلکہ ملک بھر کے عوام بلکہ پوری دنیا کے انصاف پرست لوگ shame shame کے نعرے لگائیں گے۔۔۔ سوچتاہوں کہ کیا اب انصاف گاہیں بھی آمر حکمرانوں کے مزاج کے مطابق اپنا رویہ تبدیل کر رہی ہیں ۔۔۔۔۔!