شہریت ترمیمی قانون: ایک طالب علم کی نظر میں
صدیقی محمد اویس، نیانگر، میراروڈ
مکرمی !
پچھلے دنوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی بل پاس ہوا اور پھر صدر جمہوریہ نے اس بل پر دستخط کرکے اسے قانون کی شکل دے دی ہے ۔ اصل میں یہ قانون ایک غیر آئینی قانون ہے۔ کیونکہ یہ قانون آئین ہند کی بہت سی دفعات کے بر عکس ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی طبقات پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اور اس ظلم سے اقلیتوں کو بچانے کے لئے ہندوستان کی شہریت دی جائےگی اور تو اور اس قانون میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی ہے کہ شہریت صرف ہندو، بودھ، پارسی، سکھ، جین اور عیسائی مذاہب کے ماننے والوں کو دی جائے گی جبکہ مسلمانوں سے کنارہ کشی کی گئی ہے جو کہ دستور ہند کی دفعہ ۱۴ ( مساوات کا حق ) کے بالکل برعکس ہے ۔
یعنی یہ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور بنانے کی ایک سازش ہے ۔ اگر اس قانون پر غور کیا جائے تو ایک طرح سے اس قانون کے ذریعے جمہوری قدروں کو نقصان پہنچانے کی کوششکی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ قانون ہندوستان کے سیکولرازم پر ایک بڑا حملہ ہے ۔اسی لیے اس قانون کے خلاف ملک بھر میں کئی بڑی سماجی و سیاسی جماعتیں، یونیورسٹیز کے طلباء و طالبات اور عوام الناس بڑے پیمانے پر احتجاج کر رہے ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے مطالبہ کر رہے ہیں ۔
آخر حکومت ایک غیر آئینی اور نفرت پھیلانے والے قانون کو کیسے تشکیل دے سکتی ہے ؟؟؟؟
ایسا اس لیے کیونکہ حکومت یہ قانون لاکر غریبی، تعلیم، بھوک مری، روزگار، معیشت، مہنگائی جیسے کئی بڑے مسائل سے عوام کا رجحان ہٹانا چاہتی ہے ۔
اگر آج ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ( صدر ، قانون ساز اسمبلی ) زندہ ہوتے تو وہ بھی اس قانون کی مخالفت کر رہے ہوتے۔ لیکن ہمیں بالکل مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ پرزور انداز میں ایسے غلط اور نفرت پھیلانے والے قانون کی مخالفت کرنی چاہیے اور آخر وقت تک ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔
آخر میں ان تمام لوگوں کے لئے ایک شعر عرض ہے جو حق کی لڑائی میں بے خوف ڈٹے ہوئے ہیں۔
میں جھکا نہیں میں بکا نہیں کہیں چھپ چھپاکے کھڑا نہیں جو ڈٹے ہیں محاذ پر مجھے ان صفحوں میں تلاش کر