بتاؤ کیا خریدو گے!
ذوالقرنین احمد
بین الاقوامی یوم انسداد بدعنوانی ہر سال ۹ دسمبر کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد بد عنوانی کو روکنا ہے۔ اور عوام کو رشوت خوری سے بچانے کیلے بیدار کرنا ہے۔ ہر ملک و ریاست میں کرپشن کو روکنے کیلے انیٹی کرپشن بیورو کا محکمہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن آج دیکھا جائے تو پورے ملک میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں کرپشن کے بغیر کو چھوٹا سا کام بھ، نہین ہو پاتا ہے۔ جہاں دیکھوں وہاں۔ کرپشن ہے۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازمین جنہیں سرکار عوام کے کام کرنے کیلے نوکری دیتی ہے اور ماہانہ انکم دیتی ہے۔لیکن وہ ملازمین کام کرنے میں ایسے ٹال مٹول کرتے ہیں جیسے انکی باپ کی جاگیر ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کوئی احسان عوا پر کر رہی ہے۔ اسی طرح جب انہیں رشوت چاہیے ہوتی ہے۔ تب یہ کہتے ہیں کہ صاحب کی فیس جمع کردو، یا پھر خاموش ہوکر سامنے والے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اسے طرح بہت سارے محکموں میں جب رشوت کو چائے پانی کا نام دیا جاتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو ایجنٹ ہوتے ہیں وہ عام عوام سے چھوٹے موٹے کاموں کیے زیادہ رقم لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں بھی اندر کھلانا پڑھتا ہے۔ اسی طرح یہ ایجنٹ لوگ ان سرکاری اداروں افراد کو وقتاً فوقتاً کبھی کچھ تو کبھی کچھ انکے گھر پہنچا دیتے ہیں۔
آج کل تو بڑے بڑے کاموں کیلے پہلے فیصد کے حساب سے ڈیل ہوتی ہیں، اور پھر آگے بات بڑھتی ہیں، ورنہ ٹیبل ہی بیٹھنے کیلے تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں امیر افراد رشوت دےکر اپنے کام آسانی کے ساتھ نکال لیتے ہیں اور غریب عوام ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے۔ اسکی وجہ ملک میں غریبی اور مہنگائی بڑھتی جارہی ہیں۔ جس میں صرف ایک طبقہ امیر ہوتا جارہا ہے اور غریب مزید غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوکر رہ جاتا ہیں۔ انصاف کو بھی خریدا جاتا ہے۔ انصاف کے مہیا کرنے والے اداروں کو بھی پیسوں کے بل بوتے پر انکی زبانوں پر تالے ڈال دیے جاتے ہیں۔
آسی طرح جب نوٹ بندی ہوئی تب غریب افراد جنکے پاس چند ہزار روپیہ کل پراپرٹی تھی وہ لائن میں لگ کر اپنے پیسے تبدیل کر رہے تھے۔ اور امیر افراد بڑے بڑے بزنس مین، اور دو نمبر کے کاروبار کرنے والے جن کا پاس کالا پیسہ جمع تھا انہوں نے بڑے پیمانے پر ڈیل کرکے اپنے پیسہ تبدیل کروائے لیکن نا ان بینک کے منیجروں پر کوئی ایکشن لیا گیا اور ناہی کسی بڑے آفیسر پر نا انٹی کرپشن بیورو والوں نے ایسے افراد پر کوئی کاروائی کی۔ یا اس جرم میں یہ تمام افراد ملوث ہوتے ہیں اس لیے خاموش ہوجاتا ہے۔ یا اپنے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ملک کا معاشی نظام جو آج بری طرح متاثر ہوا ہے وہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے کرپشن اور ملک کے سرکاری اداروں کو ختم کرکے اسے کارپوریٹ کے حوالے کرنے کی وجہ سے معاشی تنزلی عروج پر ہیں۔ ملک کا کوئی محکمہ ایسا نہیں بچا ہیں جس مین رشوت خوری نہیں ہوتی ہے۔ اسکول کالج ، یونیورسٹیوں میں کم مارک آنے پر بچوں کے مارک کو بڑھانے کیلے اساتذہ کو پیسہ دیے جاتے، اسی طرح بڑے کالجوں میں داخلہ دلوانے کیلے رشوت کو ڈونیشن کا نام دیا جاتا ہیں اور امیروں کے بچوں کو آسانی سے داخلہ دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اچھے مارک حاصل کرنے والے طلباء کو فیس کی رقم ادا نا کرنے کی بنا پر انکی زندگی کو تباہ و برباد کردیا جاتا ہے۔ ج۔ ملک و قوم کا نام روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسی طرح سیاسی میدان میں انتخابات کے دوران ووٹوں کا سودا کیا جاتا ہیں رشوت دے کر ووٹ مانگے جاتے ہیں۔ پارٹی کے امیدواروں خریدا جاتا ہیں۔ حکومت بنانے کیلے یا بلدیہ پر قبضہ کرنے کیلے بھی اپے حق میں کارپوریٹر کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے لاکھو روپے میں خریدا جاتا ہیں۔ بڑے بڑے سرکاری ایوارڈ حاصل کرنے کیلے اور اپنا نام اونچا کرنے کیلے پیسہ دے کر یا کھلا کر جھوٹی شان و شوکت اور واہ واہی کیلے ایوارڈ دینے والے اداروں کے ذمہ داروں کو بھی خریدا جاتا ہیں۔ رشوت خوری اتنی عام ہوچکی ہیں کہ انکم سرٹیفکیٹ، ڈومسائل، او اسی طرح سے راشن کارڈ وغیرہ بنانے کیلے ہزاروں روپیہ غریب عوام سے وصول کیے جاتے ہیں۔ جبکہ یہ ذمہ داری نگر پریشد ، تہصیلدار کے افسران کی ہیں کہ وہ قانونی طور پر جو عوام کا حق ہیں وہ انہیں مفت میں دستیاب کرائے، چاہے وہ اسکے لیے بڑے پیمانے میں ہر چھ مہینے میں کیمپ لگائے، اور عوام کو ان کا حق دے۔ آج کل میک ایند انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا کے نام پر عوام کو لوٹا جاتا ہیں۔ انکے سرکاری کاغذات بنانے کیلئے 28روپیے 35 روپیے کی چلان کی جگہ دو دو سو روپے تک وصول کیے جاتے ہیں۔ ان تمام آن لائن کرنے کا مقصد عوام کو لوٹنا نہیں تھا لیکن اب اس مرحلے کہ اور مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اگر اتنا ہی ڈیجیٹل کرنا ہیں اور بدعنوانی پر قابو پانا ہیں تو عوام کیلے ان کاموں کو آسان بنانا چاہیے کہ وہ آن چلان بھر سکے یا آف لائن بھرنے کیلے ایک سیتوں قائم کیا جائے۔ جہاں پر جو چالان ہے اتنی ہی وصول کی جانی چاہیے۔ لیکن ہر طرف بدعنوانی کی بھر مار ہیں۔
کوئی شعبہ اب رشوت خوری سے محفوظ نہیں دیکھائی دیتا ہیں۔ پولیس محکمہ میں رشوت سب سے زیادہ عام ہیں اصل مجرم کو بچانے کیلے چند پیسوں کی خاطر انصاف کو قانون کو سولی پر چڑھا دیا جاتا ہیں۔ پیسہ والوں کو نظر انداز کیا جاتا ہیں اور غریب عوام کے ساتھ ظلم و جبر کیا جاتا ہے۔ انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو ملک میں بد امنی اس قدر عام ہوجائے گی کہ جس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔ اور ہوبھی رہی ہے روزانہ اخبارات اور نیوز چینلز پر ایسی سیکڑوں خبریں ملتی ہیں کہ چھوٹے چھوٹے محکمہ سے لیکر بڑے سرکاری غیر سرکاری اداروں میں رشوت خوری کسقدر عام ہوچکی ہیں۔ عدالتوں مین گواہ وکیل بیچے خریدے جاتے ہیں۔ اسلام نے رشوت خوری کو حرام قرار دیا ہے۔ آج ایک دن اینٹی کرپشن ڈے کو منانے سے کیا اس پورے کرپٹ سسٹم کو ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہیں کہ عوام روزانہ اسکے خلاف سختی سے احتجاج کرے الٹا لٹکائیں جائے پر رشوت نا دیں، اور آج کل تو رشوت پیمانے بھی بدل چکے ہیں، اللہ کی پناہ یہ معاشرہ تباہی کی طرف تیزی سے بڑھتا جارہا ہیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اگزام میں پیپر کے مارک بڑھانے کیلے عصمتوں کا سودا کیا جاتا ہیں۔ نوکری حاصل کرنے کیلے منیجر کی خواتین ایمپلائر سے عزت کا سودا کرنے پر رضا مندی کی جاتی ہیں۔ اسی طرح پرموشن کیلے بھی کیا جاتا ہیں۔ یونہی یہ معاشرے میں لڑکیوں کو لیڈس فرسٹ کہ کر نہیں پکارا جاتا ہیں۔
جس قدر آج ایک مسکراہٹ میں لڑکی اپنا انٹرویو پاس کرلیتی ہے۔یہ کوئی افسانہ نہیں آج کے موجودہ دور کی حقیقت ہیں۔ رشوت خوری ہر جگہعام چکی ہیں کوئی بھی محکمہ اب بدعنوانی سے محفوظ دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ اس لیے عوام کو چاہیے کہ ایسے موقع پر جب کوئی رشوت کا مطالبہ کریں تو وہ شور مچا دے۔ اور ایسے بدعنوان افسران کے خلاف قانونی کارروائی کریں انہیں اپنی اصلیت دیکھائی کہ وہ جو کام کرتے ہیں۔ اس کا معاوضہ سرکار سے وصول کرتے ہیں۔ اس لیے صرف ایک دن نہیں ہر وقت کرپشن کے بدعنوانی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔ تبھی کچھ حد تک اسے روکا جاسکتا ہے۔
اس ماحول میں قتیل شفائ کی یہ نظم بار بار ذہن کے پردے پر ابھر رہی ہے کہ
“بتاؤ کیا خریدو گے؟
جوانی، حسن، غمزے، عہد، پیماں، قہقہے، نغمے
رسیلے ہونٹ، شرمیلی نگاہیں، مرمریں بانہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
بھرے بازو، گٹھیلے جسم، چوڑے آہنی سینے
بلکتے پیٹ، روتی غیرتیں، سہمی ہوئی آہیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
زبانیں، دل، ارادے، فیصلے، جانبازیاں، نعرے
یہ آئے دن کے ہنگامے، یہ رنگا رنگ تقریریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
صحافت، شاعری، تنقید، علم و فن، کتب خانے
قلم کے معجزے، فکرو نظر کی شوخ تصویریں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
اذانیں، سنکھ، حجرے، پاٹھ شالے، داڑھیاں، قشقے
یہ لمبی لمبی تسبیحیں، یہ موٹی موٹی مالائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟
علی الاعلان ہوتے ہیں یہاں سودے ضمیروں کے
یہ وہ بازار ہے جس میں فرشتے آ کے بک جائیں
یہاں ہر چیز بکتی ہے
خریدارو! بتاؤ کیا خریدو گے؟