سماجیمضامین

انکاؤنٹر: پروموشن کیلئے یا اصل مجرموں کو بچانے کیلئے۔۔۔!

ذوالقرنین احمد

حیدرآباد میں ہوئے عصمت دری و قتل کے مجرموں کو آج صبح پولس نے انکاؤنٹر کردیا ہے۔ اگر فیصلے ایسے ہی ہونا ہے تو اناؤ کے متاثرہ کو بھی انصاف ملنا چاہیے، بی جے پی کے لیڈر کا انکاؤنٹر ہونا چاہیے، اسی طرح آصفہ کے مجرموں۔ کا بھی انکاؤنٹر ہونا چاہیے، ایسے ہزاروں کیسز ہے پھر عدالتیں کس لیے ہیں؟

مینکا گاندھی نے کہا جو ہوا ہے ملک کے لیے بہت بھیانک ہوا ہے آپ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتے، ان(ملزم) کو ویسے بھی عدالت کسی بھی طرح پھانسی ہی دیتی، اگر آپ قانونی عمل مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں گولی مار رہے ہیں تو پھر عدالتیں، قانون اور پولیس رکھنے کا کیا فائدہ؟

یہ کوئی انصاف نہیں ہوا ہے ملزمین پر جرم آئد ہونے سے پہلے انہیں مجرم قرار دینا کہا کا انصاف ہے۔ پولس حراست میں ہونے کے باوجود ملزم بھاگنے کی کوشش کیسے کر سکتے ہیں کوئی فلمی سین تھوڑی چل رہا ہے یا کسی فلم کی ریہرسل چل رہی ہے۔ جو آیا دل میں کرو۔ قانون اور جمہوری نظام کس لیے ہیں، ملزم کو قانونی طور پر مجرم قرار دینے جانے کے بعد سرے عام پھانسی دینے چاہیے تھی، ناکہ خفیہ طور پر انکاؤنٹر کردیا جائے۔

یہ بات بلکل جمہوری نظام کے خلاف ہے۔ ایکطرف تو ہمارا قانون ہے کہ اگر کوئی مجرم ہماری اوپر حملہ کرتا ہے تو الٹا ہم دفعہ کے سوا کچھ کرتے ہیں تو وہاں ہم مجرم قرار دی جاتے ہیں اور اگر یہی کام پولس کریں تو انہیں ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے انکا پروموشن کیا جاتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو پکڑا گیا تھا اسکے علاوہ کوئی اور‌ ہی مجرم ہو اور بڑی مچھلیوں کو بچانے کیلے بے گناہ معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو، اور ایک بات یہ بھی صرف حیدرآباد کے مجرموں کو اس طرح سے انکاؤنٹر کرکے مار دینا مطلب عوام کو بے وقوف بنانا ہے جو آوازیں انصاف کیلے اٹھتی رہی ہیں انہیں خاموش‌ کرنا ہے۔

کیونکہ اس ایک کیس کی وجہ ایسے سیکڑوں کیسز سامنے آرہے ہیں جو اسی نوعیت کے ہے جس میں کل سے ایک تازہ معاملہ سامنے آیا ہے نوجوان لڑکی جس کی عصمت دری کی گئی تھی اسی کے مجرموں کو عدالت نے ضمانت پر رہا کیا تھا اور جب وہ لڑکی صبح کے وقت شہر کی عدالت میں کیس کی تاریخ پر جانے کیلئے نکلی تو مجرم اور اسکی ۵ ساتھیوں نے اسکے سر پر لاٹھیوں سے وار کیا جس وہ بے ہوش ہ کر گر پڑی اور پھر اس پر آئیل ڈال کر آگ لگا گئی جسمیں 90 فیصد تک جل چکی ہے۔

ہوسکتا ہے ایسے کیسز کو دبانے کیلے بھی یہ کام کیا گیا ہے۔ اور جو احتجاج ریپسٹوں کے لیے سخت قانون سازی کیلئے ملک بھر میں کیے جارہے ہیں انہیں خاموش کرنے یا خوش کرنے کا ایک عمل ہے۔ اگر حقیقت میں قانونی چارہ جوئی کے بعد مجرم قرار دینے جانے کے بعد کو مجرموں کو کھلے عام پھانسی دی جاتی تو اس سے مجرموں کو سبق ملتا۔ لیکن اب حیدرآباد پولس پر شک جتایا جارہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے مجرم اس میں ملوث ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!