ٹاپ اسٹوری

بابری مسجد مقدمہ: راجیو دھون اور جمعیتہ علماء

قاسم رسول الیاس کی ایک وضاحتی تحریر

جناب قاسم رسول الیاس صاحب کی ایک تازہ ترین وضاحتی تحریر،جس سے ایک جماعت کی ناعاقبت اندیشی ہر معاملہ میں شہرت وسرخیاں بٹورنے اور اپنے نام کوہاٸی لاٸٹ کرنے کی شرمناک روش کاعلم ہوگا۔


واضح رہے کہ اپنے آپکو سب سے بڑی اور سب سے قدیم جماعت قراردینے والی جمعیتہ علماء نے جس طرح مجلس مشاورت جماعت اسلامی کو پسند نہیں کیااسی طرح جمعیت کبھی مسلم پرسنل لابورڈ کوبھی ہضم نہیں کرپاٸی، بابری مسجد مقدمہ سے طویل عرصہ سے وابستہ قاسم رسول الیاس ص کی تحریر کامتن??

“……ڈاکٹر راجیو دھون کے تعلق سے جو پوری گفتگو چل رہی ہے اس میں بہت ساری باتیں گمان پر مبنی ہیں۔ ڈاکٹر راجیو دھون بابری مسجد مقدمہ سے 1993 سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک دوبار الہ آباد ھائی کورٹ کی لکھنو بنچ میں بھی اس کیس میں appear ہوچکے ہیں۔ نرسمہا راؤ نے جب اجودھیا میں 67 ایکڑ زمیں (بشمول بابری کی آراضی کے) کو اکوائر کیا تو اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس کیس میں بھی راجیو دھون صاحب نے مسلم فریق کی نمائندگی کی تھی۔

2001 میں جب ھندوؤں نے اجودھیا میں متنازعہ زمیں پر شیلا پوجن کا شوشہ چھوڑا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ اس موقعہ پر پرسنل بورڈ نے تین سینئر ایڈوکیٹ، جناب کپل سبل، جناب سدھارتھ شنکر رے اور ڈاکٹر راجیو دھون کو انگیج کیا۔ الحمداللہ فیصلہ ہمارے حق میں آیا ۔ جب 2011 میں الہ آباد ھائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس وقت بھی بورڈ نے ڈاکٹر راجیو دھون کو انگیج کیا۔ ہم نے ان سے خواہش کی کہ یہ کیس لمبا ہے اگر آپ سے فیس طے ہوجائے تو بہتر رہے گا ۔ انہوں نے بہت سختی سے منع کیا اور کہا کہ جب میرے حالات اتنے اچھے نہیں تھے تب میں نے کوئی پیسہ اس کیس میں نہیں لیا تو اب بھی نہیں لوں گا۔

بورڈ نے اس کیس کے لئے 6 ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اور ان کے جونیئرس کی ایک ٹیم بنائی اور محترم ظفریاب جیلانی اور سینئر ایڈوکیٹ یوسف حاتم مچھالا اس کیس کی نگرانی کرتے رہے۔ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ میں محترم اعجاز مقبول بھی شامل تھے۔ 7 فریقوں کی پیروی مسلم پرسنل لا بورڈ کررہا تھا اور ایک فریق کی نمائندگی جمیعت علما کررہی تھی۔ ہماری خواہش تھی کہ کمیٹی کی مٹینگ سب وکلا شامل رہیں تاکہ ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت مقدمہ چلے اور مسلم فریقون کے لائحہ عمل میں کوئی اختلاف نہ رہے اور سب کا پٹیشن ایک ہی وقت میں داخل ہو۔

جمعیت کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ مرحوم انیس سہروردی تھے وہ اپنی اپیل دکھانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے بعد میں ہم نے رجسٹری سے اسے حاصل کیا۔ اس میں متعدد خامیاں تھیں جنھیں درست کروایا گیا۔ انیس سہروردی کے انتقال کے بعد جمیعت نے ایڈوکیٹ ارشاد حنیف وغیرہ کو انگیج کیا۔ بعد میں 2017 میں ایڈوکیٹ اعجاز مقبول صاحب بھی جمیعت کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ہوگئے ۔ وہ بورڈ کے بھی ایک مقدمہ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ تھے۔ ڈاکٹر راجیو دھون تمام ہی فریقوں کی کورٹ میں نمائندگی کرتے تھے۔

پہلے جمیعت نے سینئر ایڈوکیٹ راجیو رامچندرن کو انگیج کیا تھا۔ ہماری بھی خواہش تھی کہ ڈاکٹر راجیو دھون تمام مسلم فریقون کی نمائندگی کریں۔ اس کے علاوہ بورڈ نے سینئر ایڈوکیٹ شیکھر نافڈے اور سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑا کو بھی انگیج کیا تھا۔30 نومبر کو بابری مسجد کمیٹی کی مٹینگ میں ریویو پٹیشن کی حکمت عملی پر گفتگو ہوئی اور طے کیا گیا کہ 3 دسمبر ایک بار پھر بیٹھا جائے تاکہ ریویو پٹیشن کو فائنل کرکے شام میں دھون صاحب کو دکھا دیا جائے۔ دھون صاحب سے وقت بھی لے لیا گیا تھا۔ اور یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ حتی المکان ایک ہی تاریخ میں یہ داخل کئےجائین گے لیکن جمیعت نے 2 دسمبر کو ہی ریویو داخل کرکے پریس کانفرنس کرلی۔

بعد میں معلوم ہوا کہ نہ تو فائنل ڈرافٹ ڈاکٹر دھون نے approve کیا تھا اور نہ انھیں علم تھا کہ وہ آج داخل کیا جائے گا۔ پھر انہوں نے ہمیں ملاقات پر بتایا کہ مجھے پریس سے معلوم ہوا کہ میں بیمار تھا اس لئے میں نے کیس لڑنے سے منع کردیا……………

“……۔اس کے بعد اعجاز مقبول نے میرے کلرک کو فون کرکے کہا کہ میں مجبور تھا۔……… “

اس کے بعد میں نے اعجاز مقبول کو ای میل بھیج کر کہا کہ گویا آپ نے مجھے مقدمہ سے ہٹا دیا ہے۔ راجیو دھون سے تقریباً دیڑھ گھنٹہ گفتگو رہی جس میں انہوں نے ریویو پٹیشن سے متعلق متعدد اہم مشورے دئے۔ البتہ کہا کہ ریویو پٹیشن داخل کرنے میں میری ضرورت نہیں ہوگی تاہم اگر یہ قبول ہوجاتے ہیں اور کیس دوبار چلے تو میں بہرحال اس مقدمہ سے الگ نہیں ہوا ہوں۔ کاش اس اہم اور آخری مرحلہ میں یہ ناخوشگوار بات نہ ہوئی ہوتی۔ اگر ریویو پٹیشن داخل کرنے میں ایک یا دو دن کی تاخیر ہوجاتی تو شاید یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ فاعتبرو یا اولی البصار

والسلام
ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس
کو کنوینر بابری مسجد کمیٹی
آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!