سماجیمضامین

وہ دروازے۔۔۔

مرزا انور بیگ

اب تو اخبار کی روزآنہ کی سرخیاں یہ ہو گئی ہیں کہ ۔۔۔۔ شہر میں اجتماعی عصمت دری، ۔۔۔۔۔ شہر میں اجتماعی عصمت دری اور قتل، کسی میں دبنگوں کا عمل دخل، کسی میں سیاست دانوں کا۔ پھر ٹی وی پر خبروں کے ساتھ ساتھ مباحثے اور زانیوں کو سزائے موت دینے کی گہار۔ ریلیاں، موم بتی مارچ ، کچھ حکومت کی یقین دہانیاں اور پھر اگلی واردات تک خاموشی۔

حالانکہ اگلی واردات کے لئے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا ایسا بھی ہوا ہے کہ ابھی ایک واقعہ پر مباحثہ جاری ہی تھا کہ اسی دوران دوسرا بھی پیش آگیا۔ یہ نہ رکنے والے واقعات کیا ہمیں غور کرنے پر مجبور نہیں کرتے؟

صرف قوانین بنانے سے یا سزا بھی سنا دینے سے جرائم نہیں رکتے جب تک ان کے پیچھے بااخلاق معاشرہ موجود نہ ہو۔ اسلام نے سخت سزائیں وضع کیں اور ساتھ ساتھ معاشرے کو جس اعلیٰ ترین اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا اس کی بدولت جرائم کا خاتمہ ہوسکا نرے قانون سازی یا سزا دینے سے نہیں۔

آج معاشرے کی حالت یہ ہے کہ برائیوں کے تمام دروازے کھلے ہیں۔ تمام مواقع موجود ہیں بلکہ بہت سی برائیوں کو برائی ہی نہیں جانا جاتا۔ بعض قابل اعتراض عوامل کو حکومت کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔

مرد و زن کی مشترکہ تقاریب اور میل جول، شہروں میں نوجوان لڑکی لڑکوں کے آزادانہ میل جول، کالج کا ماحول، مختلف قسم کی تقاریب کے نام پر، کلچرل پروگرام کے نام پر اور غیر شادی شدہ زندگی کے پارٹنر کے نام پر، عریانیت اور بے شرمی، الیکٹرانک میڈیا پر اخلاق سوز پروگرام کی اشاعت، پارلیمنٹ سے عورت کی آزادی کے نام پر پاس ہونے والے بل، اسی طرح آذادی نسواں کے نام پر اٹھنے والی غیرفطری آوازیں۔

یہ چند عوامل ہیں جن پر توجہ نہ دے کر صرف سزاؤں کی مانگ سے جرائم خاص طور سے عورتوں بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم روکے نہیں جا سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!