تلنگانہجرائم و حادثاتریاستوں سے

حیدرآباد: خاتون ڈاکٹرکی آبروریزی اور قتل میں ملوث خاطیوں کو سرعام پھانسی دینے یا حوالے کرنے مقامی عوام کا مطالبہ

چار افراد گرفتار، ملزمین میں تین ہندو اور ایک مسلمان شامل، سوشل میڈیا پر واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش

حیدرآباد: 30؍نومبر۔ تلنگانہ میں ویٹرنری ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی اجتماعی عصمت ریزی اور قتل واقعہ کے خلاف ریاست بھر میں عوامی مظاہرے جاری ہیں اگر چکہ پولیس نے چار ملزمین کو گرفتار کرتے ہوئے انھیں آج عدالت میں پیش کرنے کی تیاری کرلی لیکن مقامی عوام نے شاد نگر پولیس اسٹیشن کے پاس جمع ہوکر ملزمین کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کافی احتجاج کیا ۔جس کے باعث شادنگر میں کافی کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس اسٹیشن کے پاس سینکڑوں لوگ جمع ہوگئے.

جن میں خواتین، طلبہ اور نوجوان بھی شامل ہیں ملزمین کو سرعام پھانسی دینے یا انکائونٹر کردینے کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگائے ۔بعض خواتین نے ملزمین کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ وہ خود انھیں سزا دے سکیں ۔ پولیس احتجاج کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملزم ، جو فی الحال شاد نگر پولیس اسٹیشن میں ہیں ، کو کچھ دیر میں فاسٹ ٹریک عدالت میں پیش کیا جانے والا ہے

حیدرآباد میں ایک دل دہلانے والا واقعہ سامنے آیا، جس نے لڑکیوں اورخواتین کی حفاظت پر ایک بارپھرسوال اٹھایا ہے۔ حیدرآباد کے نواحی میں شاد نگر کے انڈر پاس کے قریب خاتون ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی جلی ہوئی لاش ملی ہے۔خاتون کی اجتماعی آبرویزی و قتل کیس میں اب تک پولیس نے چار افراد کو گرفتارکرلیاہے۔ پولیس نےبتایاکہ اس معاملہ میں محمد پاشاہ، نوین، کیشولو،شیوا کو گرفتار کیاگیاہے۔ پولیس کا کہناہے کہ اس معاملہ کے اہم ملزم محمد پاشاہ کا تعلق ضلع محبوب نگر سے ہیں۔ پولیس شبہ ظاہر کیاہے کہ ملزمین نے پہلے متاثرہ کی اسکوٹی کوپنکچرتاکہ اسے اپنی ہوس کا شکار بناسکیں۔

تلنگانہ پولیس نے بتایا کہ ملزمین نے متاثرہ لڑکی کی مدد کرنے کے بہانے اسے ایک سنسان مقام پرلے گئے اور وہاں اس کی اجتماعی عصمت ریزی کی گئی جس کےبعد اس کا قتل کردیاگیا اور لاش کو ایک ڈی سی ایم کے ذریعہ شاد نگر انڈر پاس کے قریب پہنچادیاگیا۔پولیس نے سی سی ٹی وی کی مدد سے ملزمین کی شناخت کی ہے۔

یادرہے کہ حیدرآباد کےنواحی علاقہ شاد نگر میں ایک انسانیت سوزواقعہ پیش آیاہے۔خاتون ویٹنری ڈاکٹرکونذرآتش کردیاگیا۔لاش کی شناخت 27 سالہ پرینکا ریڈی کےطورپرکی گئی تھی۔ابتدائی رپورٹ کےمطابق مہلوکہ کوجنسی ہراسانی کی شکاربنایاگیا ہے۔ پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لئے 10 ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔وہیں دوسری جانب نیشنل ویمن کمیشن نے اس معاملہ کا ازخود نوٹ لیاہے۔ متوفیہ ڈاکٹر نے آخری بار میں نے اپنی بہن سے بات کی تھی 22 سالہ پرینکا ریڈی ویٹنری ڈاکٹرہے، وہ کلورکے ویٹنری اسپتال میں بدھ کے روزاپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے روانہ ہوئی تھی۔

اس نے اپنا اسکوٹی ٹول پلازہ پرکھڑی کی۔رات کوگھرواپسی کے دوران تواس نے دیکھا کہ اس اسکوٹی کا ایک ٹائر پنکچرہوگیا۔ جس کے بعد اس نے فوراًاپنی بہن کو فون کیا۔ چونکہ رات کا وقت تھا، پریتی (نام تبدیل) نے اپنی بہن سے کہا، ‘ ٹائر پنکچرہوگیا ہے، مجھے یہاں ڈر لگ رہاہے۔ یہاں صرف ٹرکس ہی قریب دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی بہن نے کہا کہ اسکوٹی کو وہاں چھوڑدو اورٹیکسی بک کرکے گھرآجاؤ۔ تاہم وہ کبھی اپنے گھرنہیں پہنچی۔

اہل خانہ پر ویٹنری ڈاکٹر کی کررہے تھے تلاش پریتی ریڈی نے کال واپس کرنے کی بات کرکے فون سے رابطہ منقطع کردیاتھا۔جب وہ گھر نہیں پہنچی تو گھر والوں نے اسے فون کیا، تب فون بند تھا۔ اس پر، وہ لوگ خود ٹول پلازہ تلاش کرنے نکلے۔ ٹول پلازہ پہنچنے پرانہیں وہاں کوئی نہیں ملا۔ اس کے بعد لواحقین نے رات 11 بجے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ جمعرات کو پولیس کو ڈاکٹر کی نعش ملی۔ پولیس کررہی ہے جانچ پولیس کا کہناہے کہ لاش شاد نگرٹاؤن کے قریب چٹانپلی پل کے قریب جلائی گئی۔ انہیں شبہ ہے کہ اس کا قتل عصمت دری کے بعد کیا گیا ہے۔ پولیس نے ٹول پلازہ سے شراب کی بوتلیں، کپڑے اور ان کے جوتے برآمد کرلئے ہیں۔

سائبر آباد پولیس نے دو ٹرک ڈرائیوروں کو تحویل میں لے لیا ہے۔ قریب ہی ایک مرمت کرنے والی دکان نے پولیس کو بتایا کہ رات ساڑھے نو بجے سے ​​10 کے درمیان ایک شخص اسکوٹی کی مرمت کرانے کے لئے آیاتھا۔سائبرآباد پولیس کمشنر وی سی سججنار نے بتایا کہ پولیس کی ایک ٹیم ٹول پلازہ پر موجود سی سی ٹی وی فوٹیج کو اسکین کررہی ہے۔پولیس کوشبہ ہے کہ مجرمین نے پہلے ویٹنری ڈاکٹر کی اسکوٹی کو پنکچرتاکہ بعد میں اسے اپنی بربریت کا شکاربنایاجاسکیں۔

تلنگانہ کے وزیربلدی ونظم ونسق وٹی آرایس کے کارگذارصدر کے ٹی راما راؤ نے یقین دلایاہے وہ خاتون کی آبرویزی و قتل کیس کا شخصی طورپرجائزہ لیں گے۔ انہوں نے خواتین سے اپیل کی ہے کہ مشکل حالات میں وہ پولیس کنٹرول روم سے ربط کرنے کے لیے فون نمبر100 پرربط کریں ۔

دریں اثناء اس سانحہ کے بعد سوشل میڈیا پر فرقہ پرستوں نے اسے ہندو مسلم کا نام دے کر فرقہ پرستی پھیلارہے ہیں۔ اور زانی کو مذہب سے جوڑ کر اسلام اور پیغمبر اسلام محمدﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں۔ حالانکہ اس کیس میں صرف ایک مسلم نوجوان ہے باقی تین ہندو ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!