خواتینسماجیمضامین

میرا حجاب، میرا فخر

شاہانہ خانم، حیدرآباد

جو تعلیم عورت کے سرسے ڈوپٹہ اور مرد کے دل سے خوف دورکردے ایسی تعلیم سے ان پڑھ رہنا بہتر ہے پردہ ہی میری حرمت،میرا تحفظ میری عقیدت میری عزت، میرا مذہب، میری چاہت میرا حجاب ہی ہے۔
اسلام نے عورت کو سب سے پہلےعزت دی اور معاشرے میں اسے فخر وعزت کا باعث بنایا۔مسلمان عورتوں کے لئے جونشانی دی گئی اسلام اسے ”حجاب“ کہتا ہے۔ قرآن میں حجاب کوایک لمبی چادرکے طور پر یہ بیان کیا گیا ہے جسے بعض علماء نے برقع سے واضح کیا۔

اسلام کے شروع کے دور میں کچھ مسلمان خواتین نے رسول اللہ ﷺ سے آکر شکایت کی کہ ان میں اور دوسری کفارخواتین کے پہناوے میں کوئی فرق نہیں جس کی وجہ سے وہ آتے جاتے اکثر اوقات تضحیک کا نشانہ بنتی ہیں۔ اس وقت درباررسالت میں حضرت عمرؓ بھی موجود تھے۔ آپِﷺ نے مشورہ دیا کہ مسلمان خواتین اپنے چہروں پہ نقاب ڈال لیں۔اس وقت سے مسلم خواتین کو حجاب کو لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔

تاہم آج اس برقع کی روایت میں کافی حد تک تبدیلی آچکی ہے حجاب صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ مغربی خواتین بھی اس کو اپنا رہی ہیں۔ اسکارف کی سب سے بڑی خاصیت تویہ ہے کہ دوپٹے کے ساتھ یہ آپ کی حجاب کی ضرورت کو بھی پورا کرتی ہیں۔اگر بے حجاب،کھلے سر،اور تنگ کپڑے پہن کر گھومنا اور اپنے چہرے یا جسم کی نمائش کرنا ماڈرن ازم کہلاتا ہے تومیرے خیال میں جانور سے زیادہ ماڈرن توکوئی اور نہ ہو۔

آج دنیا میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ ہر کوئی تعلیم یافتہ ہے اور ایسی تعلیم سے کیا فائدہ جو تعلیم عورت کے سرسے ڈوپٹہ اور مرد کے دل سے خوف دورکردے ایسی تعلیم سے ان پڑھ رہنا بہتر ہے۔سرپر دوپٹہ رکھنے سے عورت اللہ کی رحمت کے سائے میں رہتی ہے حیا بڑی دولت ہے اور جو عورت اس دولت کو سنبھال سنبھال چلتی ہے کبھی کنگال نہیں ہوتی۔ نہ حسن کے معاملے میں نہ کشش کے معاملے میں۔عورت کے لیے پردے کا شرعی حکم اسلامی شریعت کا طرہ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دے کر عزت وتکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا۔ پردہ کا شرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مرد کی تمام تر جنسی کمزوریوں کا کافی وشافی علاج ہے۔

اس لیے دختران اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہوسکیں۔حضرت خدیجہ ؓ کو عرب سوسائٹی میں بہت عزت اور وقار سے پہچانی جاتی تھی۔ان کا کاروبار پورے عرب میں پھیلا ہوا تھا۔ آپ طاہرہ کے نام سے پکاری جاتی تھیں۔ اس طرح حضرت عائشہؓ کی زندگی پر نظر ڈالیں۔ ہمیں ازواج مطہرات کواپنا رول ماڈل بنانا چاہے اور اپنی زندگی کو ان کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کرنی چاہئے، اور جتنا ہوسکے اپنی سترکو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے اور ہمیں چاہیے کہ باہر نکلتے وقت شرعی پردے میں باہر نکلیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں توعورت محفوظ بھی رہتی ہے اور بہتر طور پر معاشرہ میں اپنا کردار ادا کرسکتیں ہے اور باوقار طریقے سے پہنچانی جاتی ہے اور کسی اجنبی کی ہمت بھی نہیں ہوتی کہ اس پر نگاہ ڈالے۔

اللہ تعالیٰ نے نفسیاتی خواہشات سے بچانے کے لئے عورت کوحجاب میں رکھا ہے۔ حجاب عورت کی عفت اور پاکدامنی کا پاسبان ہے۔ اس سے عورت کی شرم وحیا کا اظہار ہوتا ہے۔ حجاب عورت کی حیا کا پیکر بناتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے راہ روی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ خواتین کے بے پردگی ہے۔آج بھی اس نسل نو میں اپنے تشخیص اور پہچان کیلئے بیداری کی لہراٹھ گئی ہے اورپورا مغرب حجاب سے خوف زدہ نظر آرہا ہے فرانس اور دیگر ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے، مختلف تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگانے سے یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ ہم مسلم خواتین کے تشخیص کونہیں مانتے، کیونکہ حجاب مسلمان خواتین کے تشخیص کی علامت ہے جبکہ دیگر سب تہذیبوں کومانا جارہا ہے جب ایک مسلمان عورت اپنے سرکو ڈھانتیں ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے اپنی پہچان کا احساس ہے اور وہ اسلامی تہذیب اورثقافت کیلئے سراٹھا کر کھڑی ہے اور اس سے مغرب خوفزدہ نظر آرہا ہے۔

مسلمان معاشرے میں ہر خاتون اس کی ایک رکن ہے، خواہ وہ مغرب میں رہتی ہو، ایشیامیں یا عرب میں، کچھ سال پہلے ان تمام معاشروں میں ایک مسلمان خاتون باوقار طریقے سے رہتی تھی۔ کیونکہ اس کا حجاب اس کے لئے بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن آجکل مادہ پرستی اور فیشن کی جدت نے عورت کو اپنے حجاب سے بے نیاز کردیا ہے۔ آجکل کی مائیں اور بیٹیاں س اس بات پر مضطراب نظر آتی ہیں کہ دوپٹہ اوڑھنے کی چیز ہے یا سائیڈ پر لٹکانے کی چیز ہے۔ اس پر اکبرالہ آبادی کا ایک شعر یاد آیا:
بے پردہ کل نظر جوآئیں چند بٹیاں
اکبرزمیں میں غیرت قومی سے گڑھ گیا
پوچھا جوان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا

عصر حاضر کے بڑے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ فحاشی وعریانی بھی ہے۔ مغرب نے عورت کو گھر سے نکال کر اپنے افکار کی ترویج کے لئے بڑی خوش اسلوبی سے استعمال کیا ہے۔ آج معاشرے میں ہر کہیں فحاشی وعریانی کا بازار گرم ہے۔ اور یہ تمام تراثرات مغربی فکراور فلسفے کے ہیں۔ اہل مغرب نے پہلے عورت سے کہا کہ وہ معیشت میں یکساں اجرت کا مطالبہ کرنے کے لیے گھرسے نکلے پھر اس کے بعداس قضے کو زندگی کے ہر شعبہ میں پھیلا دیا۔

زیب وزینت کے حوالے سے عورتوں کے لئے مخصوص خصائل فطرت پر عمل کرنا ازحدضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کوحد شرعی وحد اعتدال میں رہتے ہوئے جائز وپاک چیزوں کے ذریعہ ہر قسم کی زیب وزینت اورآرائش وزیبائش کی اجازت دی ہے۔ لیکن اس کے لئے کچھ اصول وضوابط وضع کردیئے گئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ زینت اپنے اندرون خانہ ہو۔اپنے شوہر کے لئے ہو نہ کہ اجنبی وغیرمحرم کے لئے۔زیب وزینت اختیار کرتے ہوئے ا للہ کی فطری خلقت کا تغیر وتبدل لازم آتا ہو۔

پردہ دین کی روسے ایک واجب اور فرض امرہے لہٰذا اسلام خواتین کو کس بھی طرح کی بے پردگی یا بدحجابی، جیسا کہ نامحروں کے سامنے کھلے سرجانا یا ان کے سامنے سچ سنور کر جانا یا فیشن کے نام پر ایسانازک لباس پہننا جونامحرم کے لئے باعث تحریک ہو، کی اجازت نہیں دیتا ہے اور نہ ہی کسی مسلمان خاتون کویہ حق پہنونچنا کہ وہ جھوٹی شان وشوکت یا جمال کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ کے لیے اس عظیم حکم کو پیروں تلے روندے تاریخ گواہ ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلم طالبات کوبرقع یا اسکاف اتارنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے وہاں مسلم طالبات نے سراپا احتجاج بلند کیا۔ اورڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ حجاب اور برقع کو منوا کر دم لیا۔ اور اپنی تہذیب پرسختی سے عمل پیرا رہی یا پھر اپنی تعلیم کو خیرآباد کردیا۔اس لیے کہ غیرت میں ہی عزت ہے۔میں فخر سے کہتی ہوں میں اسلام سے وابسطہ ہوں میں حجاب سے رہے کر اپنے ذمہ داریوں کو بخوی نبھانے کی کوشش کی۔ اس لئے میرا حجاب میرا فخر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!