اُمہات المومنین ؓ اور آج کی عورت
آخرکیا وجہ ہے کہ ملت کی عزت مآب بیٹیاں مغربیت کی جانب مائل ہورہی ہیں!
شاہانہ خانم، حیدرآباد
اسلام کے ہر دور میں اگرچہ عورتوں نے مختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے لیکن امہات المومنین کی حیثیت جامع ہے، اور ان کے دینی اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے خواتین کے لئے نہ صرف اسودۂ حسنہ بن سکتے ہیں بلکہ انہیں موجودہ دورکے تمام معاشرتی اور تمدنی خطرات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جو مسلمان خواتین راہ راست سے بھٹکی ہوئی ان کے قابل تقلید ہوسکتی ہے۔ مغربی تہذیب وتمدن اور طرز معاشرت سے ہمارے گھروں میں تیزی سے سرایت کررہا ہے امہات المومنین کی زندگی کے تمام پہلو خواہ وہ انفرادی یا اجتماعی نمونہ تقلید بن سکتی ہے۔
امہات المومنین انتہائی سادہ اور زاہدانہ زندگی بسرکرتی تھیں۔ جدید دور کی خواتین کی طرح پہننے اوڑھنے اور فیشن میں دکھاوا نہیں ہوتا تھا۔امہات المومنین اپنے گھر کے سارے کام خود کیا کرتی تھی آج کی خواتین کی طرح نہیں نوکرانی اورخانساماں رکھتے اور ان سے کام لینے کا رواج نہیں تھا موجودہ خواتین کی طرح امہات المومنین کومال کی حرص نہ تھی اور وہ مال کو جمع کرنے یا رکھنے کی قائل بھی نہیں تھی۔ ان میں سخاوت اور فیاضی کوٹ کوٹ کر بھری تھی ان کے یہاں کہیں سے کوئی ہدیہ یا تحفہ آتا تو وہ اسی وقت ضرورت مندوں میں تقسیم کردیتی تھی۔ حضرت زینبؓ نیتِ حجش بھی فیاضی اور سخاوت میں بہت مشہورتھی غریبوں اور مسکنیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کوبخوبی سمجھا اور اس پر عمل بھی کیا۔
مسلم معاشرے میں میوزک سیرئل اور فلمیں دیکھنے کارواج بڑھتا جارہا ہے جس کی اسلام نے اجازت نہیں دی ہے امہات المومنین کا اس پر سختی سے عمل رہا اور وہ نہ صرف خود اس زمانے میں رائج ان چیزوں سے دور رہیں بلکہ دوسروں کوبھی ان سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ہماری خواتین کی اکثریت جانے انجانے میں رسول اللہ ﷺ کے احکام کی نافرمانی کرجاتی ہیں۔ اس کا سب زیادہ تردنیا کے رسم ورواج ہیں جبکہ امہات المومنین اللہ اور اس کے رسول کے احکام سختی سے پابندی کیاکرتی تھیں اور اس میں رسم رواج لوگوں کی فکر اور زمانے کا خوف آڑے نہ آتا تھا۔
موجودہ دور میں خواتین اپنی بات کوصحیح ثابت کرنے کے لئے بات بے بات پر غلط صحیح قسمیں کھا یا کرتی ہیں،اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے امہات المومنین ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتیں تھیں اور عفودرگذر سے کام لیتی تھیں۔ ازواج مطہرات علمی میدان میں بھی پیچھے نہیں رہیں، بلکہ علم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا انہوں نے نبی کریم ﷺ سے جوکچھ سیکھا اسے عوام الناس سے بحسن خوبی بتادیا۔ ان کی صفات آج کی دور کی خواتین کے لئے مشعل راہ ہیں یہ شرط کہ حقیقی معنوں میں ان پر عمل کیا جائے۔
امہات المومنین کی باہمی قربت نے ایک بے مثال انجمن قائم کی۔ اس انجمن کے اندرہر وقت بے لوث محبت سچی دوستی اور حقیقی خیرخواہی کا دور دورہ رہتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی بہت قریب سہیلیاں تھیں ان کا آپس میں جتنا گہرا تعلق اتنا گہرا تعلق اپنی دوسری رشتے دار خواتین سے بھی نہیں تھا۔ وہ ایک دوسرے کی دم ساز اور ہم راز تھیں۔ وہ جب اپنی سوتن جولیاں اس انجمن کی مستقل ملاقاتیں اور نشتیں ہواکرتی تھیں کبھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ یعنی سب کی نشست ہوتی تھی توکبھی آب کی عدم موجود گی میں بھی۔آپﷺ کی 11ازواج مطہرات تھی اور ان میں اتنی ہم خیال محبت ہمدردی تھی کہ یہ کبھی سوتنیں نہیں نظرآتی تھی ایک حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ جب گھر میں تشریف رکھتے تھے۔
ان کے ایک طرف حضرت سودہؓ بیٹھی تھی۔ میں نے آپ ﷺ کے لئے خزیرہ یعنی(سالن)بناکر لائی۔ میں نے سودہ سے کہا، تم بھی کھاؤ،سودہ نے کہا:مجھے خواہش نہیں ہے۔ میں نے کہا: کھاؤ،ورنہ ابھی یہ تمہارے منہ پر مل دوں گی۔ سودہ نے نہیں کھایا تو میں نے اپنے ہاتھ میں سالن لگایا اور ان کے چہرے پر مل دیا۔آپﷺ دیکھ کر مسکرادیے،پھر آپﷺ نے سودہ کے ہاتھ میں سالن لگایا اور کہا تم بھی عائشہ ؓ کے چہرے پر مل دو۔ اس کے بعد پھر آپ ﷺ ہنسنے لگے۔ اتنے میں باہر سے حضرت عمرؓ کی آواز سنائی دی۔ آپﷺ کو خیال ہوا شاید وہ ملاقات کرنے آئے ہیں۔ آپﷺ نے دونوں سے کہا: اٹھو جلدی سے اپنا منہ دھولو۔اس واقعے سے امہات المومنین ؓ کے درمیان جومحبت،اپنائیت،بے تکلفی اور صاف دلی جھلک رہی سے وہ دل کش اور بے نظر ہے۔
رسول پاک ﷺ کی پاک بیویوں میں آپس میں اس قدر دل داری اور غم خواری تھی۔ کہ اگر آپﷺ کسی ایک سے ناراض ہوجاتے تو دوسری اس پر خوش ہونے کے بجائے آپﷺ کی ناراضی دورکرنے کی کوشش کرتی۔ ایک بارآپ حضرت صفیہؓ سے کچھ بات پر ناراض ہوگئے تھے۔ اس دن حضرت صفیہؓ کے یہاں آپ کے رہنے کی باری تھی۔ حضرت صفیہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئیں اور کہا میری آج کی باری تم لے لو اور میرے سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کی ناراضی دور کرنے کی کوشش کرو۔حضرت عائشہؓ تیار ہوگئیں حضرت صفیہؓ کی اوڑھنی اوڑھی اور آپﷺ کے پاس جاکر بیٹھ گئیں۔ آپﷺ نے دیکھ کر فرمایا: تم یہاں سے جاؤ آج تمہارا دن نہیں ہے‘ حضرت عائشہؓ نے کہا: یہ اللہ کا افضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔اس کے بعد پوری بات بتائی تواللہ کے رسولﷺ کی ناراضی دور ہوگئی اور آپﷺ حضرت صفیہؓ سے راضی ہوگئے۔
امہات المومنین نے زندگی کے نظام کو مشترکہ بنایا ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں جانتی تھی اس لئے ان کے دل صاف،کینہ حسد سے پاک تھے۔ ایک مرتبہ سفر سے واپسی کے دوران آپﷺ نے سارے قافلہ سے کہا کہ چلو آپ سب آگے چلے جاؤ۔ تو جب سارے آگے نکل چکے تھے اور بس آپﷺ اور حضرت عائشہ ؓ ہی رہے گئے تھے۔ آپﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا: چلو عائشہؓ دوڑ لگائیں۔ تو حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپ دوڑ میں آگے نکل گئی۔کچھ دونوں کے بعد کسی سفر سے واپسی کے دوران آپ ﷺ نے فرمایا سارے قافلہ کو حکم دیا کہ وہ سارے آگے نکل جائیں۔ اور اب آپﷺ اور حضرت عائشہؓ ہی رہیں، تو آپﷺ نے فرمایا پھر دوڑ لگائیں۔ اب کی بار آپ ﷺ حضرت عائشہؓ سے آگے نکل گئے تو آپﷺ نے فرمایاآج میں برابر ہوگیا۔حضرت عائشہؓ مسکرا ئی۔
جتنے بھی گھر اجڑتے دیکھے ہیں ان میں زیادہ ترقصور شوہر کا ہی ہوتا ہے جوبیوی کو لاتے تو بڑے پیارسے ہے پر شادی ہونے کے بعد بیوی کو نوکرانی بنادیتے ہیں، تجھے میری ماں کی خدمت کرنی ہے، میری بہنوں کی بات ماننی ہے، میرے بھائی کی خدمت کرنی ہے، ایسا نہیں کرنا ویسا نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ بیچاری کو قیدی بناکے رکھ دیتے ہیں اور اگر غلطی سے کسی دن کسی کام میں کمی رہ گئی یا کوئی فرمائش کردی توگالی گلوچ ہوتی ہے اوراس کے خاندان والوں کی جو حالت زار ہوتی ہے وہ الگ۔ کوئی بھی گھرنا ٹوٹے اگر شوہر بیوی کا احساس کرے اسے عزت دے۔تو بیوی اس کو اپنے سرکا تاج بنائے گی۔ اس کے خاندان والوں کواپنے سرآنکھوں پر بیٹھائے گی۔
صرف حسد اور جلن کی وجہ سے ایک عورت دوسری عورت کی دشمن بن جاتی ہے۔ اللہ نے عورت کوبہت صبرسے نوازا ہے۔ آج کل طلاقیں زیادہ ہورہی ہیں اس لئے کہ ان میں وہ محبت ایثار اور صبر کہیں نظر نہیں آتا ہے جو اپنے محبت صبر اپنے ایثار سے اپنے اندر ایک مشعل کی طرح صدیوں روشن رہتی ہے۔اس سارے گھرجھگڑوں میں مظلوم خواتین بھول گئی ہے۔ ہمیں لوگوں کے سامنے صنف نازک کے حقوق کی اہمیت چیخ چیخ کر اجاگر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں پڑتی بلکہ دین کا صحیح فہم حاصل ہوتو وہ معاشرہ خود بخود معرض وجودآجاتا ہے جہاں کوئی مظلوم نہیں رہتا۔ جہاں یتیموں،بیواؤں،کمزور وبے تواؤں اور مظلوموں کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے۔جہاں خواتین اپنے گھروں کی رانیاں ہوتی ہیں، جہاں بیٹیاں بوجھ نہیں سمجھی جاتی ہیں بلکہ انہیں سرآنکھوں پر لاڈاور پیار کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے۔ جہاں صالح معاشرے میں پھر مرداور عورت دونوں برابر اپنا حصہ ڈال کر دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنانے کے ساتھ ساتھ آخرت کی فلاح وکارمرانی کوبھی یقینی بنالیتے ہیں۔
ہم جب اس موضوع پر غیر جابندارہوکر غور کریں گے تو یہ بات ازخود اپنے سامنے عیاں ہوجائے گی کہ عورتوں کی اس حالت زار کے لیے غیر اقوام بالخصوص مغرب کوموروالزام ٹھہراکر ہم اپنی ذاتی خامیوں، کوتاہیوں اور بے حسی کوپردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مرد جو محافظ ہوتا ہے اس میں اس کی بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو اسلامی تعلیم دے۔عورتوں کے حقوق پر کانفرنسیں اور سپوزیم منعقد کرکے حق ادائی کا دعویٰ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے گھروں میں ان کے حقوق کی پاسداری کرنی چاہیے اور انہیں وہ مقام عطا کرنا چاہئے جواسلام نے انہیں دیا ہے، کیونکہ اسلام کی ہی تعلیمات میں انسانیت کی فلاح اور ترقی کا راز مضمر ہے۔
امہات المومنین کی زندگی اس کا نمونہ ہے۔اسلام تھیوری کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام عمل کا نام ہے، ہرواعظ،دانشور،عالم اور عام شخص اگر دین مبین کوعملاً اپنی زندگی میں اور اپنے معاملات میں شامل کرے تو پھر نہ ہی لوگوں کو حقوق سمجھانے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی مسلم خواتین ظلم وجبر کی بھٹی میں پس جائیں گی اور نہ ہی انہیں کوئی اور نظریہ وفکراپنی جانب راغب کرسکے گا۔