تازہ خبریںخبریںقومی

جماعت اسلامی ہند پورے ملک میں این آرسی کے نفاذ اور مجوزہ شہریت ترمیمی بل کی مخالفت کرے گی

ہر محاذ پر ناکام ہوچکی حکومت اپنی اسی ناکامی کو چھپانے اور عوام کی توجہہ اہم مسائل سے ہٹانے کے لئے جان بوجھ کر متنازعہ موضوعات کو بحث کا موضوع بنا رہی ہے

حیدرآباد: جماعت اسلامی ہند تلنگانہ کے امیر حلقہ حامد محمد خان نے مرکزی وزیر داخلہ کی جانب سے ملک بھر میں این آر سی کے نفاذ اور شہریت ترمیمی بل سے متعلق اعلان پر اپنی تشویش کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ حکومت معیشت، فلاح و بہبود، روزگار کی فراہمی اور ترقی جیسے کلیدی مسائل کی یکسوئی میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے اور اپنی اسی ناکامی کو چھپانے اور عوام کی توجہہ اہم مسائل سے ہٹانے کے لئے جان بوجھ کر متنازعہ موضوعات کو بحث کا موضوع بنا رہی ہے۔

بیرونی شہریوں ا ور غیرقانونی پناہ گزینوں کی شناخت کے لئے ملک میں پہلے سے ہی قوانین نافذ ہیں۔ اس کے لیے 135 کروڑ عوام کو مشکل میں ڈالنا اور مسائل سے دوچار کرنا بہت ہی غلط ہے۔ آسام میں این آر سی کے پورے عمل کی ناکامی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ ایک غیر ضروری عمل تھا جس میں انسانی و مالی وسائل کا بے انتہاضیاع ہوا۔ 20 لاکھ شہری آخری فہرست میں شامل نہیں ہیں۔حکومت ان لوگوں کا کیا کرے گی خود حکومت کے سامنے بھی واضح نہیں ہے۔

یہ دعویٰ بھی بارہا کیا جاتا رہاکہ آسام میں 40 لاکھ در انداز ہیں لیکن یہ دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا۔امیر حلقہ نے کہا کہ اگر حکومت کو کسی بھی شہری پر شبہ ہو تووہ یہ ثابت کر ے کہ اُس کی شہریت قانونی نہیں ہے۔ نہ کہ ہندوستانی شہریوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ دستاویزی شواہد کے ساتھ اپنی شہر یت ثابت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کو ایسے سیاسی اعلانات سے گھبرانا نہیں چاہیے لیکن یہ بات ضروری ہے کہ ہر شہری کے پاس اُن کے تمام قانونی دستاویزات موجود رہیں۔

وزیر داخلہ نے جس طرح کے ’شہریت ترمیمی بل‘ کا اعلان کیا ہے وہ دستور ہندکی روح کے یکسر خلاف اور طبقات کے درمیان امتیازی سلوک کا آئینہ دارہے۔ اس میں کہا گیا کہ بنگلہ دیش‘ پاکستان اور افغانستان سے ہندوستان آنے والے ہندو، جین، سکھ، بدھ اور عیسائیوں کو ہی شہریت دی جائے گی اور ان کے علاوہ دوسروں کو یہ سہولت نہیں دی جائے گی۔اس طرح یہ بل ایک تکثیری‘ سیکولر اور جمہوری قوم کی حیثیت سے ہندوستان کے اُس بنیادی نظریہ کے خلاف ہے جو ہمارے آئین میں درج ہے۔ یہ در اصل حکومت کے فرقہ وارانہ تقسیم کے ایجنڈہ کا ایک حصہ ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ ہندوستانی عوام اس طرح کی تفرقہ انگیز سیاست کے شکار نہیں ہوں گے۔ اگر حکومت ملک بھر میں این آر سی اور سی اے بی کو لاگو کرنے پر اصرار کرتی ہے تو جماعت اسکی مخالفت کرے گی۔ انہوں نے کہا”ہم اپوزیشن جماعتوں سے بھی یہ امید کرتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کریں گے اور ایسے اقدامات کی منظوری کو روکیں گے جو عوام کو بانٹنے اور انہیں خدشات میں مبتلا کرنے والے ہوں“۔

انہوں نے کہا ”جماعت اسلامی ہند تلنگانہ جے این یو طلبہ پر دہلی پولیس کی لاٹھی چارج اور سی آر پی ایف کی بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت کر تی ہے۔ جے این یو طلبہ ء قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے ہاسٹل فیس میں ایک ہزار فیصد کے غیر منصفانہ اضافہ کے خلاف پر اَمن احتجاج کر رہے تھے۔ ہمارا احساس ہے کہ طلبہ کی جانب سے ہاسٹل فیس کے فیصلے کی واپسی کا مطالبہ حق بجانب ہے، جے این یو انتظامیہ اور وزارت انسانی وسائل کو اِسے قبول کرلینا چاہیے۔

حکومت معاشرہ کے تمام طبقات کو ار زاں تعلیمی اخراجات پر عالمی معیار کی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بچنے اور طلبہ پر غیر ضروری بوجھ لادنے کی کوشش کررہی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب اور مستحق طلبہ یقینا تعلیم سے محروم ہوجائیں گے جس کا نقصان قوم کو اُٹھانا پڑسکتا ہے۔ ہم نے اس سے پہلے بھی مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کو جی ڈی پی کا 6فیصد حصہ تعلیم کے لئے مختص کرنا چاہیے۔

ہمارے نوجوان ہی ہماری طاقت ہیں اور ہمیں اُن کی تربیت اور اچھی طرح نگہداشت پر توجہہ دینی ضروری ہے۔ انتظامیہ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ طلبہ کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کرے۔ پولیس اور سی آر پی ایف سے مطالبہ ہے کہ وہ زبردستی اور زور آزما ئی سے باز رہے۔ طلبہ کے لئے یہ مشورہ ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور پر اَمن طریقہ سے مطالبات کی یکسوئی کی کوشش کریں“۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!