تعلق باللہ اوراطاعت رسولﷺ
صبا حبیب، بیدر
تعلق باللہ اوراطاعت رسولﷺ کے حوالے سے سب سے پہلے ہم کچھ سوالات کی روشنی میں ہم اس موضوع کو سمجھنےکی کوشیش کریں گے، جس میں سب سے پہلے تعلق باللہ کیا ہے؟ تعلق کیوں ہو؟ کیسا ہوناچاہیے؟ اورکیسا ہے؟ بحیثیتِ مسلمان، بحیثیتِ تحریک اسلامی سے وابستگی ہمیں کس طرح کا تعلق مطلوب و مقصود ہے؟ اور اطاعت کیا ہے؟ اطاعت رسول کیا ہے؟ اوراطاعت کے لیے کیا چیزیں لازم و ملزوم ہیں؟
(اِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) (الانعام)
’’یقینا میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالی سے تعلق کا مطلب بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ جس میں کہا گیاکہ ہماری نمازیں، ہماری قربانیاں ہماراجینا اور ہمارا مرنا یہ تمام اللہ تعالی کے لیے ہیں اور ہونی چاہیے۔
تعلق باللہ کیا ہے؟
دراصل اللہ پر ایمان ہی اللہ سے تعلق کا نام ہے۔ ہم یہاں تعلق باللہ کی اصطلاح استعمال تو ضرور کر رہے ہیں لیکن یہ ایمان باللہ سے کوئی مختلف چیز نہیں ہے، وہ ایمان جسے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا اور ایمان کے متعلق حقیقت یہ ہے کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا ہے، یہ نہیں ہے کہ زبان سے بس ایک مرتبہ اقرار کرلیا پھر ہمیشہ کے لئے کی ایک ہی حالت پر قائم ہوگئے۔ ایمان کے بارے میں کہا گیا کہ جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔
جس طرح سورہ انفال میں یہ بتایا گیا کہ ہے اس کاتعلق دراصل دل سے ہے۔ یہ بڑی عجیب بات ہوگی کہ ہم دنیا بھر کو اللہ کی طرف بلائیں اور خود اس بات کی فکر نہ کریں کہ ہمارے دل کا تعلق اللہ کے ساتھ کیا ہے؟ ہم کہیں کہ ہم حکومت الہیہ قائم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ خود ہمارے نفس اور ہمارے اندر کی دنیا پر اس کی حکومت قائم نہ ہو، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک طرف لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کی جتنی فکرکریں، حکومت الہیہ قائم ہو اللہ کا قانون نافذ ہو، تودوسری طرف اتنی ہی فکر اس بات کی بھی ہو کہ اسکی حکومت ہمارے اوپر بھی قائم ہو اور وہی ہمارے اندر کی دنیا یعنی دل پر حکمرانی کرے۔
اللہ تعالی سے ہمارے تعلق کی بنیاد مکمل ایمان ہے۔ محبت اللہ کے لیے، بغض اللہ کے لئے، کسی کو دینا، کسی کوروکنا اللہ کے لئے ہے تو یہی ایمان کی تکمیل ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ ہونے کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہے اور ہونابھی چاہیے، یہ کام جس کو ہم نے اُٹھایا ہے یا کرنے کااپنے آپ سے وعدہ کر لیا ہے اس کی جو بنیاد ہونی چاہیے وہ تعلق باللہ ہی ہے اور اللہ سے ہمارا تعلق جتنا گہرا ہوگا یہ کام بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا اگر ہمارا تعلق اللہ تعالی سے بس رسمی اورکمزور ہے تو پھر یہ کام بھی اتنا ہی کمزور ہوگا۔ ہم یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہمارا تعلق اللہ سے بھی ہے بلکہ ہمارا تعلق صرف اور صرف اللہ ہی سے ہونا چاہئے۔
تعلق باللہ کیوں؟
ہم یہ دیکھیں کہ ہمارا تعلق اللہ تعالی سے بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے، ہمیشہ ہر لمحہ ہمیں فکر ہونی چاہئے کہ اللہ تعالی سے ہمارا تعلق بڑھتا ہےیا گھٹتا ہے؟ کیونکہ ہم جس تحریک سے جڑے ہیں اس کی اصل جان ہی تعلق باللہ ہے۔ اللہ تعالی سے ہمارا تعلق کیوں ہو؟ اللہ تعالی اور ہمارے درمیان کیا نسبت ہے، جس سے یہ تعلق ہونا چاہیے؟ کیونکہ ہم اس کےعبد ہیں اوروہ معبود ہے، زمین پر ہم اس کے خلیفہ ہیں، اور اس کی بہت ساری امانتیں ہمارے سپرد ہیں ہم نے ایمان لاکر اس کے ساتھ بیعی کا معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق ہم نے اپنی جان مال اس کے ہاتھ بیچ دی ہے اور اس نے یہ جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ ہم اس کے سامنےجوابدہ ہیں اور ہمارا حساب صرف ہمارے ظاہر سے نہیں لیا جائے گا بلکہ ہماری حرکات و سکنات اور اس سے بھی کہیں زیادہ ہماری نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس ہوگا۔ توآئیے اب اس بنیاد پر اللہ سے ہمارا تعلق کیسا ہو؟
تعلق باللہ کیسا ہو؟
جب تک ہم اپنے دل میں اور اپنے دل سے یہ بات کو تسلیم نہ کرلیں کہ اللہ تعالی کے سوا ہمارا خدا کوئی نہیں، ہمارا حاکم، ہمارا پروردگار، ہمارا کھلانے والا، ہمارا پیداکرنے والا، اللہ تعالی ہی ہمارا رب ہے، ہمارا فائدہ اور نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات کا یقین مکمل طور پر ہونا چاہیے اور جب تک یہ یقین مکمل نہ ہوگا تب تک ہمارا تعلق اللہ سے گہرا نہیں ہوسکتا یا یہ یوں کہیے کہ تعلق قائم ہی نہیں ہوسکتا۔.
االلہ سےتعلق کی نشوونما کیسے کی جائے؟
تعلق کی نشوونما اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ ہم دل کی گہرائیوں سے پورے خلوص کے ساتھ ایکسیپٹ کریں۔تعلق باللہ کو بڑھانے یانشونما دینے کے لیے کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ تو اس بارے میں دو چیزیں ہوسکتی ہیں ایک فکر وفہم اور دوسرا ہے عمل۔
فہم کے طریقے سے: اللہ کے ساتھ تعلق کو بڑھانے کے لئے ہمیں قرآن مجید واحادیث کی مدد لینی ہوگی ہمارے اور خدا کے درمیان تعلق کو سمجھنا اور یاد رکھنا ضروری ہے ہم نے جو معاہدہ اللہ تعالی کے ساتھ کیا ہے اس معاہدے کو قرآن کی روشنی میں اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے، دن رات سمجھنے کی ضرورت ہے باربار پڑھنا اور اسے سمجھنا ہوگا۔ تعلق کا بڑھنا اور اس سے قریب تر ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم اللہ تعالی اور ہمارے تعلقات کو سمجھیں، محسوس کریں ،یاد رکھیں اور ان تقاضوں کو پورا کریں۔
ان سب نسبتوں سےغافل ہو کر ہم اپنے تعلق کو کمزور کر لیں گے۔ جوباتیں ابھی کہی گئیں ان سے خبردار ہونا اور ان کی طرف متوجہ رہنا ہمارے تعلق کواسی قدر گہرا اور مضبوط کرے گا۔ ان سے لاپرواہی اسی قدر کمزورولاغر کردے گی۔
عملی طریقہ سے: وہ یہ کہ احکام الہی کی مخلصانہ اطاعت ہو، اور ہر اس کام میں جان لڑا کر دوڑ دھوپ کرنا جس سے ہمیں معلوم ہو جائے کہ اس میں اللہ کی رضا اور ہماری کامیابی کا راز ہے۔جو احکام بھی ہمیں دیے ہیں وہ احکام بجا لائیں اور جن سے روکا گیا ہے ان سے روکیں۔ یہی ایمان اور تعلق باللہ کا تقاضہ ہے ۔
مولانا مودودی کتاب “تحریک اور کارکن” میں لکھتے ہیں کہ ” بحیثیت مسلمان یا پھر تحریک سے وابستہ فرد کی کوشش کا مرکزومحور جان، مال ،وقت ،محنت اور دل ودماغ کی قا بلیت غرض کسی چیز کے قربان کرنے میں بھی بخل سے کام نہ لیں۔ پھر اس راہ میں جو قربانی بھی انسان دے گا وہ اس پر کوئی فخر اس کے دل میں پیدا نہ ہو، قربانی کرکے بھی وہ یہی سمجھے کہ اللہ تعالی کا یعنی اپنے رب کا حق ادا نہیں ہو سکا۔”
یہ طرز عمل جس کو ہم اختیا ر کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں، یہ کوئی آسان راستہ نہیں ہے قرآن کی رو سے یہ بہت ہی دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لئے بڑی طاقت درکار ہے ہم ناتواں بندے اتنی طاقت نہیں رکھتے لیکن اتنی طاقت اپنے اندر لانے کے لئے کچھ تدبیریں ہیں، جنہیں ہم اختیار کرسکتے ہیں۔
نماز: میں صرف فرض، سنت ہی نہیں بلکہ نوافل بھی ہم پڑھیں لیکن اس بات کا دھیان رکھیں کہ یہ تمام نوافل اخفاء کے ساتھ ہوں تاکہ ہمارا تعلق اللہ تعالی سے نشوونما پا ئے ہمارے اندر اخلاص کی صفت پیدا ہو۔ نفل نمازیں اور تہجد کاا اظہار لوگوں کے سامنے بالکل بھی نہ ہوچیونکہ بہت سے موقعوں پر یہ اظہارریا اور کبر ہمارے اندر پیدا کر دیتا ہے جو کہ ہمارے مقصد (اخلاص)کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
ذکر الہی ایسی چیز ہے جو ہماری زندگی کے ہر لمحے میں جاری و ساری رہنا چاہیے اس کے علاوہ ایک گوشہ مختص کر لیا جائے یہ بہتر نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کا سکھایا ہوا طریقہ ہم اختیار کریں ۔اذکار کو جس قدر یاد کر سکیں، یاد کرلیں صرف الفاظ نہیں بلکہ ان کے معنے ہم ذہن نشین کر لیں تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ ہمارا تعلق اللہ تعالی سے کتنا ہے اور کس قدر بڑھ رہا ہے ؟ یہ دعائیں ہمیں اللہ تعالی سے کس قدر قریب کر رہی ہیں، تاکہ ان دعاوٴں کے ذریعے ہمارا دل اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے یہ نہایت ہی مؤثر طریقہ ہے۔
روزوں کا التزام کریں،صرف رمضان کے ہی نہیں بلکہ دوسرے نوافل روزے بھی۔لیکن ہم یہ سوچیں کہ ہمارے جو ایام روزوں میں گزر رہے ہیں یہ ہمارے اندر کتنا تقوی پیدا کر رہے ہیں؟ کیونکہ قرآن مجید میں روزوں کا مقصد یہی بتایا گیا ہے کہ انسان کے اندر خوف کی کیفیت پیدا ہو۔
انفاق فی سبیل اللہ: بھی تعلق باللہ کو بڑھانےکا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ بات ہم اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ مال کی مقدار اللہ تعالی کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اللہ تعالی کے لئے اہمیت خلوص اور نیت رکھتی ہے۔ انسان کا تزکیہ اور انسان کے نفس کا جھکاؤ یا اس کا جھکنا سب سے زیادہ اہم اس بات پر رکھتا ہے کہ وہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کرتا اور کس نیت سے خرچ کرتا ہے؟ یہ بارہا ہمارے سامنے بات آتی ہے کہ ایک ہاتھ سے دیا جائے تو دوسرے ہاتھ کو پتہ نہ چلے۔صدقہ اللہ سے ہمارے تعلق کو بڑھاتا ہے، تعلق باللہ کا عملی اظہار یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کی مخلوق کی مدد کی جائے، اسی لیے شاید علامہ اقبال نے اپنے شعر میں یہ بات بتائی کہ
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا،جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
تعلق باللہ بڑھانے کے لئے ہمیں ریاضتوں، مراقبوں کے بغیر اپنے گھروں میں بیوی ، بچوں، شوہر اورماں باپ کے بیچ رہتے ہوئے بھی ہم اپنے اللہ سے اپنا بہترین تعلق بڑھا سکتے ہیں۔ یہ بات قرآن اور سنت سے ہمیں ملتی ہے۔
تعلق باللہ کوئی کرامت نہیں ہے، کوئی کشف نہیں ہے اور کوئی تجلیات بھی نہیں ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بس صوفیاء کرام ہی کا اللہ تعالی سے تعلق ہے۔ اصل بات تو یہ ہے تعلق باللہ کا مطلب ہے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بقول اپنے آپ کو ایک کاٹی دار جھاڑی سے اپنے کپڑوں کو بچا کر نکل جانا۔ا یہی تقویٰ ہے اور یہی تعلق باللہ ہے۔اور زندگی میں شیطان کے خدشات، لالچوں کے باوجود مقابلہ کرنا ہی بڑی کرامت ہے۔
تعلق باللہ کو ناپنے کا پیمانہ:
ہم اپنے اندر محسوس کریں اور اس کے لیے ہم اپناجائزہ لے سکتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لاکر ہم نے جو بیعی کا معاہدہ کیا ہے، اس کوکہاں تک نبھارہے ہیں؟
اللہ کی امانتوں میں ہمارا تصرف کیا ایک امین (یعنی ایک امانت دار) کا ہے یا اس میں ہماری خیانتیں بھی موجود ہے؟
ہمارے اوقات، ہماری محنتیں، ہماری قابلیتیں اور ہماری صلاحیتیں، ہمارے مال، ہمارے مفادات، ہمارے جذبات میں خدا کے کام کے لیے کتنا حصہ ہے؟
اور کتنا تمام دوسری چیزوں میں یا دنیا وی کاموں کے لیے صرف کر رہے ہیں؟
جب ہمارے جذبات، ہمارے خیالات، اور ہمارے مفادات پرچوٹ پہنچتی ہے تو ہمارے غصے اور ہماری جذباتیت کا کیا حال ہوتا ہے؟
آج اللہ تعالی کے احکام کی خلاف ورزی ہوتی ہے، اللہ تعالی کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے اور اللہ تعالی کے معاملات میں بغاوت کی جاتی ہے، تب ہماری دھڑکن کا حال کیا ہوتا ہے؟ ہماری کڑھن کا حال کیا ہوتا ہے؟ غضب اور ہماری بے چینی کی کیفیت کیا رہتی ہے؟
یہ بہت ہی اہم ہے جس سے تعلق باللہ کو بہترین پیمانے پر ناپا جا سکتا ہے۔ بہت سے معاملات ایسے ہیں جس میں ہمیں خود پرسنلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ان باتوں کو ہم ہر لمحہ، ہرروز، ہر مہینہ، ہر سال محسوس کرسکتے ہیں ان باتوں کے ذریعے کہ ہم ہمارا اللہ تعالی سے تعلق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کتنا ہے؟ یا پھر ہم اپنے آپ سے دھوکا کر رہے ہیں؟ شائد اسی لیے علامہ اقبال نے کچھ اس طرح سے کہہ دیا کہ
زبان سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
فکر آخرت
تعلق باللہ بڑھانے میں ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ انسان کو فکر آخرت ہو، یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ سبھی چیزیں نتیجہ خیر چاہتا ہے، اللہ سے تعلق بھی وہ نتیجے کی بنا پر ہی بنانا چاہتا ہے، آخرت کی یادہمیں بہت سارے برے کاموں سے بچاسکتی ہے۔ یہ بات ہماری نظر میں ہونا چاہیے کہ ہمارا امتحان جو یہاں دنیا میں لیا جارہا ہے، وہ اس لیے نہیں کہ ہماری جو دنیا کی محنتیں، ہمارے ادارے، ہماری تجارتیں، ہماری صنعتیں، ہماری ملازمتیں، ہماری عمارتیں، ہماری سڑکیں ہمارے گھر یہ کیسے چل رہے ہیں اور کتنے بہترین انداز میں ہم چلا رہے ہیں؟ بلکہ یاد رہے ہمارا امتحان خدا کی امانتوں کے لئے ہے، اس کا ہم کسطرح استعمال کررہے ہیں؟ یہ تو خدا سے اس کی امانت داری کا امتحان ہے۔ ہمارا امتحان جو لیا جارہا ہے اس کا ریزلٹ آخرت میں آنے والا ہے۔ ظاہری بات ہے اس بات سے ہمارا تعلق اللہ تعالی سے اور زیادہ بڑھ جائے گا اور ہم اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے مطابق چلانا شروع کردیں گے۔
شکر: اللہ کے ساتھ سب سے پہلا جو تعلق ہمیں استوار کرنے کی ضرورت ہے وہ شکر کا ہے، ہرلمحہ شکر کا احساس ہو۔
اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو جو سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالی سے ہمارا تعلق بن جائے۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے ۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلاَّ تَخَافُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
جن لوگوں نے کہا ہے کہ : ’’ اﷲ ہمارا رَبّ ہے۔‘‘ اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو اُن پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اُتریں گے کہ : ’’ نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کاغم کرو، اور اُس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔
اللہ پر ایمان لانا آسان ہے مگر اس پر جمے رہنا آسان نہیں ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان کو اللہ پر پوری طرح توکل ّہو، وہ ہر حالت میں اس کی رضا پر راضی رہے۔ نہ اپنی کسی حالت کے بارے میں اس کی زبان پرشکایت آئے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے کسی فیصلے پر اس کے دل میں ملال پیدا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے آگے اس کا سر تسلیم جھکتا چلا جائے اور وہ اپنے تن من دھن کو ہتھیلی پر رکھے، اس کے درِ اطاعت پر ہمہ وقت کمر بستہ کھڑے رہ کرعملی طور پر ثابت کر دے کہ
’’یقینا میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے‘‘۔
استقا مت کا انحصار ہی اللہ تعالی سے تعلق کی مضبوطی پر ہے۔ یہ تعلق باللہ بڑھانے میں قرآن کا مطالعہ ،حدیث کا مطالعہ، سیرت کا مطالعہ، تحریکی لٹریچرکا مطالعہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے۔اس بات کا بھی خیال رہے کہ ہم انفاق فی سبیل اللہ کے جذبے کو اپنے اندر ابھاریں، خدا کے کام کو اپنے اوپر ترجیح دیں نہ صرف خود مسلمان بنے بلکہ اپنے مال اور اپنی جیب،اپنے بیاگوں اور اپنے والیٹس کو بھی مسلمان بنائیں۔ یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ خدا کے حقوق ہمارے جسم جان اور وقت پر ہی نہیں بلکہ ہمارے مال اورہماری کمائیوں پر بھی ہیں۔
اللہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کم سے کم انفاق کی حدتو مقرر کردی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کی نہیں کی ہے۔ ہمارے اپنے ضمیر سے پوچھیں، پوچھا جائے کہ ہم خدا کی راہ میں کتنا خرچ کریں؟ اپنی محنت کی کمائی اپنے کمائی کا کتنا حصہ ہم خدا کی راہ میں صرف کر رہے ہیں؟ اور جتنا ہم صرف کر رہے ہیں کیا ہم خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے حق بجانب ہیں؟ اس بات میں کوئی شخص کسی دوسرے کو جج نہیں کرسکتا اس کا ضمیر خود اس کا جج ہوتا ہے۔
تعلق باللہ کےعملی تقاضے:
تعلق باللہ کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں جن میں سب سے پہلے اخلاص شامل ہے، بندگی اور غلامی کی اولین شرط اخلاص کو بتایا گیا ہے۔ اس لئے سب سے بڑھ کر جس چیز کی خود بھی فکر کرنی چاہئے اور اپنے ساتھیوں کو بھی ہمیں توجہ دلانی چاہیے وہ یہ ہے کہ جو بھی کام ہو چھوٹا ہو یا بڑا ہو بظاہر دنیا وی کام ہو یا پھر دینی کام وہ اللہ کے لئے ہو، جو کام اللہ کے لیے نہیں ہوگا وہ بظاہر کتنا ہی دینی کام ہو اس پر کوئی اجر وبرکت نہیں مل سکتی ۔
مثلا اگر نماز پڑھی جائے اور نیت یہ ہو کہ لوگ دیکھیں اور دیندار کہیں تو یہ نماز دنیا کی کام بن کر رہ جائے گی اگر نعرے لگائے جائیں یا پوسٹر لگائے جائیں اور اس میں یہ بات شعوری طور پر پیش نظر ہو کہ یہ سب اللہ کے لیے ہے اس کی رضا و خوشنودی کے لئے ہے تو یہ کام بلاشبہ ایک دینی کام ہوگا اور اجر کا باعث بھی ہوگا اگر نیت کے اس پہلو کو سامنے رکھا جائے کہ سب کچھ اللہ کے لئے ہے تو بہت سے ایسے کام جنہیں سیاسی کام کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ان سے تربیت نہیں ہوتی ، ان سے تزکیہ نہیں ہوتا، ان سب سے تربیت وتزکیہ کا کیا تعلق؟
تو ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ تربیت وتزکیہ کچھ مخصوص کام کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ آدمی کو 24 گھنٹے میں جو کچھ پیش آیا وہ جو کچھ کرتا ہو، اگر وہ اس کو صحیح طور پر استعمال کرے تو وہ اس سے اپنی تربیت اور تزکیہ کر سکتا ہے اگر تربیت نہ کرنا چاہے تو نماز اور ذکر جیسی عبادات بھی بیکار جاسکتی ہیں۔ الغرض ہمیں ہر کام میں اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یہ کام جو ہم کر رہے ہیں اس نیت و اخلاص سے کریں کہ وہ اللہ کے ہاں قبولیت کا ذریعہ بن جائے۔
تعلق باللہ کے لیے جو سب سے خطرناک نقصان پہنچانے والی جو چیز ہے وہ دنیا کی محبت ہے اور اس پر راضی ہو جانا ہے اور اسی کو مقصود بنانا ہے، یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اللہ کی خاطر حق کی راہ میں چلنے کے ہر ارادے اور کوشش کو گھن کی طرح کھا جاتی ہے۔ دوسری طرف اللہ سے ملاقات کا یقین ہونا اور اسی کو مقصود ومطلوب بنانا یہ وہ چیز ہے جس سے وہ سارے مراحل طے کرنے کے لئے جو راہ حق کے اندر آتے ہیں، ان سے صحیح طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے ۔
جہاں بھی اور جب بھی مسلمانوں نے ایمان کے دعوے میں اور اس کے تقاضے پورے کرنے میں کمزوری دکھائی اللہ نےاس کی نشاندہی کی ہے، یہ اصل دکھتی رگ ہے، یہ ساری خرابیوں کی جڑ ہے، جب غزوہ بدر کا تذکرہ ہوا تو فرمایا گیا کہ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو جو بھی کمزوری تم نے دکھائی ہےاس کی وجہ دنیا کے اسباب کی خواہش تھی۔ غزوہ احد میں ڈسپلن کی کمزوری ظاہر ہوئی تو فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی خواہش رکھتے تھے غزوہ تبوک میں لوگوں نے کمزوری دکھائی تو قرآن نےا علانیہ کہہ دیا کہ کیا تم نے آخرت کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت کے مقابلہ میں کم ہے۔
اطاعت رسول ﷺ
اطاعت رسول ﷺ میں جن پہلووٴں کی طرف توجہ ضروری ہے ان میں پہلی چیز یہ ہے کہ اطاعت میں عمل کی ظاہری صورت کے ساتھ اس کے مقصد اور اندرونی کیفیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں جہاں بھی احکام کی تعمیل کا ذکر آیاہے وہاں خاص طور پر اس بات کی تاکید کردی گئی ہے کہ عمل تو ہونا چاہیے لیکن جو چیزیں اس عمل کو اللہ کی نظروں میں مقبول بنائے اور وہ اس کے پیچھے کارفرما دل کی کیفیت ہے۔ اگر نماز میں خشوع وخضوع ہوگا اللہ کا ذکر ہوگا تو نماز قبول ہوگی اور اس سے وہ ثمرات بھی حاصل ہونگے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سور النساء میں ارشاد فرماتا ہےـ’جس نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی پس اُس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‘‘ اسی طرح حب رسول ﷺ کا تقاضہ ہے کہ ہم سیرت النبی کے تمام پہلوئوں کو اپنی زندگیوں پر لاگو بنا کر ان سے اپنی والہانہ محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں ۔ آج ہما را معاشرہ بے راہ روی، اورمسائل کا شکار ہے تو اسکی بنیادی وجہ ہما ری اللہ اور اُسکے رسول اللہ ﷺ کی اتباع ، اطاعت و فرما نبرداری سے مکمل دوری ہے۔ نبی کریم ﷺ کی اتباع، اطاعت فرمانبرداری سے گہرا تعلق ہما ری کامیابی کا ضامن ہے اس لئے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حضور ﷺ کی سیرت طیبہ کے روشن پہلووٴں کو معاشرے میں اُجاگر کر یں۔
رسول اللہ ﷺ نے جو دین ہم تک پہنچایا وہ مکمل ضابطہ حیات کا عمدہ نمونہ اور اسلام کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر تا ہے افسوس اسکے باوجود بھی ہم اس کو چھوڑ دیا ہے۔ سیرت طیبہ پر عمل پیرا اور اسکا مطالعہ ہما رے ایمان کی بنیادی شرط ہے آج ہم حضور ﷺ کی سیرت طیبہ سے بہت دور ہیں اس کے بعد بھی ہم اپنے آپ کو دل کے سکون کیلئے مسلمان کہلواتے ہیں ۔ ’’ اے نبی کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘ (سورہ آل عمران آیت نمبر 31)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا مطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و اطاعت سے مشروط کردیا ہے اور اسی اتباع و اطاعت کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو اسوہ بنایا گیا ہے۔ اطاعت واتباع رسول کے بعد بندہ اللہ کا محبوب ہو جاتاہے توپھر تو ساری خدائی بندے کی ہے۔ شاید اسی بات کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا ہے۔
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے، تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا ہے، لوح وقلم تیرے ہیں۔