سماجیمضامین

یہ فیصلہ نہیں، یہ تصفیہ ہے، بس ایک ڈیلنگ ہے

عزیر احمد

جب حکومت بہت زیادہ پاورفل ہو تو عدلیہ کمزور ہوجاتی ہے، کچھ یہی صورتحال اب ہندوستان میں دکھائی دے رہی ہیں، ججز جو بابری مسجد معاملے کی سنوائی کے درمیان بار بار بول رہے تھے کہ یہ ٹائٹل سوٹ کا معاملہ ہے، کوئی آستھا کا نہیں، عدالت عظمی ثبوتوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرے گی، مگر یہ کیا ہوا بھرے آسمان کے آنگن میں، ثبوت بھی تھے، زبان حال سے اقرار بھی تھا, کہ ہاں مسجد توڑ کر جو بت رکھے گئے وہ غلط کیا گیا تھا, صدیوں سے نماز بھی پڑھی جاتی رہی ہے، تو پھر فیصلہ عقیدت کی بنیاد پر کیسے دیدیا گیا، سمجھ سے پرے ہے۔

سپریم کورٹ کی عزت و احترام کے ساتھ، مگر یہ فیصلہ نہیں، یہ تصفیہ ہے، یہ بس ایک ڈیلنگ ہے کہ تم بھی لے لو، تم بھی لے لو، اور خوش ہوجاؤ، حالانکہ سپریم کورٹ کو سوچنا چاہئے تھا کہ رام للا کی جو جائے پیدائش ہے وہ تبدیل نہیں کی جاسکتی تو مسجد کا مقام کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی فیضان مصطفی کے بقول یہ کہا جا سکتا ہے کہ رام للا کے حق میں فیصلہ ASI کی بے نتیجہ اور نامکمل رپورٹ کے ساتھ ساتھ میجوریٹیرین نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر لیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے ثبوتوں کے مقابلے میں آستھا کو زیادہ اہمیت دی، کورٹ نے آبزرو کرنے کے ساتھ ساتھ کہ آستھا یا عقیدہ ایک انفرادی چیز ہے، اس کی بنیاد پر متنازعہ زمین کا فیصلہ نہیں دیا جاسکتا بالآخر متنازعہ زمین کو ہندو مندر کی تعمیر کے لئے دیدیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کچھ لوگوں کے اعتقاد کو قانون کی حکمرانی پر فوقیت دیدی گئی، باوجود یکے کہ اسے جائیداد کے تنازعہ کے طور پر ہی حل کیا جانا چاہئے تھا۔

فیضان مصطفی نے مزید کہا کہ ایک طرف عدالت نے قبول کیا ہے کہ اے.ایس.آئی کی رپورٹ (2003) یہ ثابت نہیں کرتی ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کے لئے ایک مندر خاص طور پر رام مندر کو منہدم کیا گیا تھا، رپورٹ صرف یہ بتاتی ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت متنازعہ زمین خالی نہیں تھی، اے.ایس.آئی کی رپورٹ نے مسجد کے نیچے تعمیرات کے ملبے کی نشاندہی کی ہے جو کہ اپنے نیچر میں اسلامک بالکل نہیں ہے، مگر رپورٹ میں حتمیت کے ساتھ اس بات کا دعوی نہیں کیا گیا ہے کہ وہ اسٹرکچر رام ہی سے متعلق تھا۔

دوسری طرف کورٹ نے نرموہی اکھاڑہ کو قانونی چارہ جوئی سے یہ کہتے ہوئے ہٹا دیا گیا کہ اکھاڑہ کو ٹائٹل سوٹ میں ہونے کا کوئی حق نہیں، باجود یکے کہ وہ قانونی چارہ جوئی شروع کرنے والی پہلی فریق ہے، رام للا تو اس معاملے میں 1989 میں فریق بنا ہے، اور رام للا کے حق میں فیصلہ آنے پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی اعتقاد کو اہمیت دی گئی ہے۔

بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا، ویسے بھی مسلمان وہاں مسجد بنانے کی پوزیشن میں بالکل نہیں تھے، یہ زخم آج کا تھوڑی ہے، تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کا ایلیٹ کلاس طبقہ ہندوستان بھر کے سارے مسجدوں سے دستبرداری اختیار کرکے زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر راضی ہوگیا، تو اب اگر ہندوستان میں بچے ہوئے مسلمان دیگر مسجدوں کو بچا لے جارہے ہیں تو وہی غنیمت ہے۔
یہ فیصلہ کم سے کم میرے حساب سے بالکل ہی غیر متوقع ہے، مجھے عدلیہ پر بھروسہ تھا، پھر پورے پروسیس میں ججوں نے جو میچوریٹی دکھائی تھی وہ بھی کچھ اور ہی منظر درشاتا تھا، اور فریق مخالف بھی کہیں نہ کہیں نا امیدی کا شکار تھا، بہرحال عدالت عظمی کا فیصلہ ہے، سو سر خم تسلیم ہے۔

مگر ایک ڈر بھی ہے کہ کل کو اگر میجوریٹی چاہے کہ رام مندر تو بن چکا، اب ہمیں رام راجیہ بھی چاہئے کیونکہ وہ بھی ہمارے اعتقاد کا حصہ ہے تو کیا یہی عدالت پھر مذہبی جذبات کی بنیاد پر فیصلہ سنائے گی اور ایک بار پھر میجوریٹی کے اعتقاد کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی؟
یہ فیصلہ بہت ہی تکلیف دہ ہے، لیکن اس وقت پاس “صبر جمیل” کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

یہ تصور کرکے ہی عجب سی کیفیت ہورہی ہے کہ جس جگہ صدیوں تک “اللہ اکبر” کی صدائیں گونجتی رہی ہیں، وہاں اب “بھجن” بجا کریں گے، وہ زمین جو کبھی مصلیوں کی پیشانی کو چومتی تھی، اب وہ شرک و بت پرستی کی آلائشوں سے رنگ دی جائے گی۔

لیکن میرے تصور میں اس کے ساتھ صلح حدیبیہ کا بھی منظر سامنے آتا ہے، صحابی رسول بیڑیوں میں جکڑے ہوئے، ایمان کی دولت سے مالامال، معاہدے کے مطابق واپسی کا مطالبہ کیا جاسکتا، واپس کردیا جاتا ہے، اور دیگر اصحاب رسول حزن و غم کی تصویر بنے دیکھتے رہ جاتے ہیں، پھر حالات بدلتے ہیں، وہ بھی اس طریقے سے کہ خانۂ خدا کو قیامت تک کے لئے بتوں سے پاک کردیا جاتا ہے، سو کون جانتا ہے، کل کس نے دیکھا ہے؟

ویسے بھی ہندوستان میں مسلم قوم ایسی ہے کہ اس کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اس قسم کے دو چار تھپیڑے ملنے ضروری ہیں، اسے ابھی کسی طوفاں سے آشنائی ہی نہیں، یہ تو بس بیکار کی چیزوں میں مصروف رہنے والی قوم ہے، اسے تو یاد بھی نہیں کہ اسے دنیا میں بھیجا کیوں گیا ہے؟ سو مقصد سے بھٹک جانے والی اور مستقبل کی کبھی فکر نہ والی قوم کے لئے ایسے جھٹکے ضروری ہیں، ایک چیز میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ مودی جی سے مجھے امید ہے کہ وہ ہندؤوں کو پکا سچا ہندو بنائیں نہ بنائیں, مگر مسلمانوں کو ری ایکشن میں ایک صحیح دِشا ضرور دکھا جائیں گے۔

کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ ہوجاتا تو بہتر ہوتا، یہ ان کی رائے ہے، اور ان کی رائے کا احترام بھی، مگر سچ یہ ہے کہ آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ مناسب آپشن نہیں تھا، کبھی کبھار دنیا کو صرف یہ دکھانے کے لئے میدان میں ڈٹے رہنا ضروری ہوتا ہے کہ فریق مخالف گیم جیتنے کے لئے کس حد تک گر سکتا ہے۔

یہ صرف ایک مسجد کی لڑائی نہیں تھی، یہ ہندوستان میں بقول اویسی مسلمانوں کے لیگل رائٹس کی لڑائی تھی، اپنے حق کی لڑائی تھی، اور حق کی لڑائی لڑی جاتی ہے، اس سے دستبردار نہیں ہوا جاتا، دستبرداری بزدل قوم کا شیوہ ہے، بہادر قومیں آخر وقت تک جنگ میں ڈٹی رہتی ہیں، ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے, کم سے کم دنیا کے سامنے آنا بھی تو ضروری تھا کہ ہم ڈٹے رہے، ہم لڑتے رہے, ہم نے پوری کوشش کی، مگر جب انصاف ہی اندھا ہوجائے تو ہم کیا کرسکتے ہیں، ہم سے چھین کر لیا گیا ہے، ہم مجبور ہیں، ہم راضی نہیں تھے، ہمیں رشوت بھی دی گئی، مگر ہم نے ٹھکرا دیا کیونکہ ہم بکنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں، نہ ہی پانچ ایکٹر زمین کی ہمیں چاہ ہے، یہ لڑائی صرف بابری مسجد کی نہیں تھی، یہ لڑائی ہندوستان میں ان کئی مساجد کی تھی جس پر شرپسندوں کی نگاہ گڑی ہوئی ہے، ہم ایک مسجد ہار گئے، تو شاید ہمیں اس ہار سے سیکھ ملے، اور آگے کے لئے نئی اسٹریٹجی تیار ہو۔

بار بار کہا جا رہا ہے کہ امن و سلامتی کے لئے ایک متنازع زمین کو کیوں نہیں چھوڑا سکتا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ قربانی صرف مسلمان ہی کیوں دیں، جمہوریت میں قربانی دینا اکثریت کا حق ہوتا ہے، اور اقلیت کے جان و مال اور پراپرٹی کی ذمہ داری حکومت اور عدلیہ کی، اور تینوں Entities ناکام ہورہی ہیں، تو پھر اقلیت کا لائحہ عمل جو بھی ہوگا، کم سے کم اس پر شکایت کرنے کا حق کسی کو نہیں۔

تاریخ اپنے آپ کو واپس دہرا رہی ہے، ہم دو قومی نظریہ کی طرف پھر سے بہت تیزی سے واپس جارہے ہیں، رام مندر کے حق میں فیصلہ آنا کوئی معمولی بات نہیں، یہ مستقبل کی ایک ایسی شروعات ہے جس کا ڈر بہت پہلے سے ستائے جارہا ہے، ہندو میجوریٹیرین کا جو پہلے خطرہ تھا وہ اب سچ ہوچکا ہے، پولیٹیشینز ہیرو بن چکے ہیں، بھکتی عروج پر پہلے ہی تھی، حالیہ کچھ فیصلوں نے متششدد ہندؤوں کے دلوں میں ہندو راشٹر کے قیام کی ایک امید جگا دی ہے، آنے والے دن ہندوستانی مسلمانوں پر نہایت سخت ہوسکتے ہیں، ان کے سامنے این.آر.سی کا عفریت ویسے ہی منہ پھاڑے کھڑے ہے، انہیں اب یقین ہونے لگا ہوگا کہ اس پورے ہندوستان میں ان کی کوئی سنوائی نہیں ہونے والی، اور ہندوستان ہی کیا پوری دنیا میں ان کی کوئی سنوائی نہیں ہونے والی، جب ایک اسٹیٹ کو مکمل کئی دنوں سے لاک ڈاؤن کرکے رکھا جاسکتاہے اور دنیا کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگ رہی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے۔

ہم ہندوستانی مسلمان اس وقت اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں، اور یہ لڑائی ہمیں نہایت ٹھنڈے دماغ سے لڑنی ہونی گی، اور ایک لائحہ عمل کے ساتھ لڑنی ہوگی، ڈر کی وجہ سے نہ اپنی پراپرٹی سے دستبرداری کام آئے گی اور نہ ہی میجوریٹی کی Appeasement کی پالیسی کام کرے گی، اس ملک کے حالات نہایت تیزی سے بدلتے جارہے ہیں، اور بازی ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہے، اس لئے جو ابھی ہے، اس کو سنبھال کر رکھنا، اور اس کی حفاظت کے لئے اپنے اندر اور اپنی آنے الی جنریشن کے اندر مزاحمت کی مشعل جلائے رکھنا بھی ضروری ہے، پھر چاہے مسجد کے لئے ہو یا مکمل مذہب کے لئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!