مذہبیمضامین

ہم نے جشنِ میلادالنبیﷺ میں مشنِ نبیﷺ کو بھلادیا!

شاہانہ خانم، حیدرآباد

کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

حضرت محمد ﷺ کی دعوت ہر خاص وعام کے لئے تھی آپﷺ کی بلند پایا سیرت کا اعتراف نہ صرف آپکے ماننے والوں نے کہا بلکہ غیروں نے بھی اسکا اعتراف کیا ہے۔۔ایک انگریزی منصف لکھتا ہے کہ محمد ﷺ ایک ایسا ہیرو ہے کہ اگر وہ طبیب کے میدان میں جاتا تو اول،سپاسلاری کے میدان میں جاتا تھا اول،اگر سائنسدان یا فلسفی ہوتے غرض کہ دنیا کاکوئی بھی میدان ہوتا تو آپ گسب سے آگے ہوتے اور اس نے آپ کوانسان کامل اور ہر میدان میں اول کہاہے۔

اسکے علاوہ ابو سفیان اسلام لانے سے پہلے آنحضرت کا بدترین دشمن تھا مگر جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے اس سے پوچھا کہ محمد ﷺ لوگوں کو کیا تعلیم دیتا ہے اور کیا اس نے بھی تمہارے ساتھ کوئی بدعہدی یا غداری کی ہے؟ تو ابو سفیان کی زبان سے اسکے سواکوئی الفاظ نہ نکل سکے کہ وہ بت پرستی سے روکتا ہے اور حسن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اس نے آج تک ہمارے ساتھ کوئی بدعہدی نہیں کی۔ یہ وہ آپکی سیرت کے تمام پہلو ہیں جن کو غیروں،اپنوں،دوستوں،ساتھیوں،دشمنوں اور غلاموں نے غرض کے ہر ایک نے انکو تسلیم کیا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہیے کہ بیسوی صدی کی چکاچوند چاندنی سے متاثر ہونے کی بجائے آپؐ کے نقش قدم پر چلیں اور اسلام کے جھنڈے کو آپ ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے بلند کریں خدا ہمیں اسکی توفیق دے۔ آمین۔

ہماری غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہے کہ ہم نے سرکار دوعالم ﷺ کا ذکر مبارک صرف ایک مہینے یعنی ربیع الاول کے ساتھ خاص کردیا ہے، اورربیع الاول کے بھی صرف ایک دن اور ایک دن میں بھی صرف چند گھنٹے نبی کریم ﷺ کا ذکر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کا حق ادا کردیا ہے، یہ حضور اقدس ﷺ کی سیرت طیبہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم سیرت طیبہ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

صحابہ اکرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری زندگی میں کہیں یہ بات آپ کو نظر نہیں آئے گی۔ اور نہ آپ کو اس کی ایک مثال ملے گی کہ انہوں نے 12/ربیع الاول کو خاص جشن منایا ہو۔ عید میلادالنبیؐ کا اہتمام کیا ہو،یا اس خاص مہینے کے اندرسیرت طیبہ کی محفلیں منعقد کی ہوں۔ اس کے بجائے صحابہ اکرام کا طریقہ یہ تھا کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکاردوعالم ﷺ کے تذکرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں دو صحابہ ملے انہوں نے آپ کی احادیث اور آپ کے ارشادات آپ ﷺکی دی ہوئی تعلیمات کا آپ کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کا تذکرہ شروع کردیا۔ اس لئے ان کی ہر محفل سیرت آپ کی بتائے گئے تعلیمات پر عمل کرنے کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔دنیا میں بڑے آدمی بہت پیدا ہوئے اور ہوتے ہیں بڑے لوگ وہ بھی ہیں،جنھوں نے کوئی اچھی تعلیم حاصل کی اور کوئی تعمیری فکر پیش کی ہو، اپنے سے اخلاق وقانون کے نظام سونجے، معاشرے کی اصلاح کے کام کیے، سلطنیں چلائیں، فقرودرویش کے عجیب عجیب نمونے ہمارے سامنے پیش کئے، اور وہ لوگ جنھوں نے دنیا کے سامنے انفرادی اخلاق کا اونچے سے اونچا معیار قائم کردکھایا۔

مگر ایسے بڑے آدمیوں کی زندگیوں کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو بالعموم ہیں دیکھتے ہیں کہ ان کی قوموں کا سارارس زندگی کی کس ایک شاخ نے چوس لیا اور باقی ساری ٹہنیاں سوکھی رہ گئیں۔ ایک بہاؤ اگر بہت زیادہ روشن ملتا ہے تو کوئی دوسراپہلو تاریک دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف افراط ہے تو دوسری طرف طریقہ ملتا ہے۔

آپ کے اخلاق کا ایک بہترین قصہ یہ ہے کہ مکہ میں ایک بوڑھی کفار عورت بازار میں سامان لیے سب کو زورزور سے آواز دے رہی ہے،ہے کوئی جو میرا یہ سامان میرے گھر تک پہنچا دیں۔ باربار وہ آواز دے رہی تھی،ہر کوئی اس کے اطراف چل پھر رہے ہیں جیسے کوئی بہرے چل رہے ہو۔ کوئی اس بوڑھی عورت کی آواز کو سننا نہیں چاہتا یا پھر سن کر اپنے راستے چلے جاتے تھے۔ کافی دیر سے وہ آواز دے رہی تھی کسی نے نہ سنی پھر ایک نوجوان آیا اور وہ سارا سامان اپنے کندھے پر اٹھایا اور چلنے لگا تو وہ بوڑھی عورت کہنے لگی بیٹا جب سے آواز دے رہی ہوں کسی نے میری آواز نہیں سنی۔ میرا گھر فلا جگہ ہے جب وہ گھر پہنچ گئی تو وہ نوجوان سارا سامان سلیقہ سے جمع دیا اور اس عورت سے اجازت چاہی تب یہ عورت سامان اٹھ کر لانے کا موازنہ دینے لگی تو وہ نوجوان انکار کردیا تب وہ کہنے لگی ٹھیک ہے بیٹا۔ میں تم کو ایک مفت مشورہ دینا چاہتی ہوں مکہ میں ایک محمد ؐ نام کا نوجوان ہے جو خدا کا پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے بت پرستی کو روک رہا تم اس کی باتوں میں نہیں آنا۔ ویسے تمہارا نام کیا بیٹا تو وہ نوجوان کہنے لگا میرا نام ہی محمد ؐ ہے تب وہ یہودی عورت ان کے اس اخلاق اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔مکہ والوں نے چاند کے دو ٹکڑے ہوئے دیکھا تو کہا محمدﷺ نے چاند پر جادو کردیا ہے۔ جس کی وجہ سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ پتھروں کو کلمہ پڑھایا تو کہنے لگے آپ نے جادو کیا ہے۔ بدرکے موقع پر فرشتے دیکھے مگر پھر بھی ایمان نہیں لائے۔آپ کو اتنی تکالیف دی کہ آپ لہو لہان ہوجاتے تھے۔ جنگ خندق میں شکست کھائی مگر پھر بھی کلمہ نہیں پڑھا۔لیکن جب آپﷺ نے بیت اللہ کے دروازہ پکڑکر فرمایا۔ جاؤ میں نے تم کومعاف کیا۔ تو سب جوق درجوق مسلمان ہوگئے۔ معاف کرنا بہت بڑا عمل ہے، معاف کرنا اور معافی مانگا سیکھئے۔نبیؐ محسن انسانیت کی زندگی کا ہر گوشوں کے ساتھ پوری طرح متوازن بھی ہے۔آپ کے اخلاق نے توانقلاب برپا کردیا۔ آج چودہ سو برس سے زائد گزرجانے کے بعد بھی انسانیت اخلاقی پستی سے بچنا، یا باہر آنا چاہتی ہے ”جہالت کے اندھیروں سے نکلنا چاہتی ہے، انفرادی اصلاح کی خواہش مند ہے یا اجتماعی انقلاب کی، امن وامان قائم کرنا چاہتی ہے۔ یاجان ومال کے تحفظ کا نظام معاشی فلاح وبہبود چاہتی ہے،سیاسی نظم ونسق،اس کے لئے راہ ہدایت ہے تو صرف اور صرف نبی کرم ﷺ کا اسوہ مبارکہ اس کے نئے وقت کے فتنوں،دشمن کی دئنام طرازیوں،طاغوئی طاقتوں کے حملوں سے بچنے کے لئے اگر کوئی پناہ گا ہے۔ تووہ ”محمد عربی ﷺ کی سیرت طبیبہ ہے“

ایک اور واقعہ شاید سب کو اس بات علم ہوگا کہ ایک یہودی عورت آنحضرت ﷺ جب نماز کیلئے جاتے تو اس عورت کے گھر سے گذرتے،تووہ عورت ان پر کچڑا ڈالتی تھی۔ آپﷺ کچڑے کو ہٹاکر چلے جاتے تھے۔ اور وہ عورت شرپسند ہر روز اپنا معمول بنالی تھی۔ آپﷺ حسبِ معمول نماز کیلئے وہی راستے سے جارہے تھے تو عورت دیکھائی نہیں دی،ایسے کی دو تین دن گذر گئے آپ ﷺ سوچ رہے تھے کہ کیا بات ہے کیا یہ عورت کے سمجھ میں آگیا کہ کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہے یا کوئی اور بات ہے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ اس عورت کے گھر گئے اور دیکھا کہ اس کی طبیعت خراب ہے تو آپ نے اس عورت کی عیادت کی اور اس کی تیمارداری کی تو اس عورت نے دیکھاکہ جو انسان کے اخلاق اتنے بلند ہوتے ہیں وہ انسان غلط ہوہی نہیں سکتا اس نے اسلام قبول کرلیا۔آپ ﷺ اخلاق سے متاثر ہوکر۔

ہمارا معاشرہ انتقامی ہے اچھا کرو گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا کریں گے۔برا کروگے تو ہم بھی ان کے ساتھ برا کی معاملہ اپنائیں گے۔ آج کل معاف کرنے والے اخلاق ہے نہیں۔ایک ماں بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ میرا بیٹا کبھی کسی کو سلام نہیں کرتا ہے۔وہ کسی کو اچھا نہیں سمجھتا تو اس سے ملنا بھی پسند نہیں کرتا ہے اللہ اکبر جو سب سے بڑا عیب ہے اس کا فخر کیا یہی ہماری تعلیمات ہے۔ جب ہی اپنے بچوں کو یہ تعلیم دی گی تو معاشرہ کا کیا حال ہوگا۔ کیا اللہ کے رسولﷺ کی یہی تعلیم ہے۔

معاذ سے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا میں تمہیں سارے دن کا خلاصہ بتاؤ معاذ وہ جس کے ہاتھ میں علماء کا جھنڈا ہوگا آپ سے اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا آپﷺ نے اپنی زبان کو پکڑکر اور فرمایا ماس اس زبان پر قابو پاجاؤ یہ پورا سب سے زیادہ جہنم میں زبان کی پکڑہوگی اس کو قابو پانا سیکھو۔ پر آج کل یہی زبان پر قابو نہیں پارہے ہیں اس کو تو قینچی سے زیادہ تیزچلا رہے ہیں۔اسلام کی تکمیل اچھے اخلاق کے ساتھ ہی مکمل ہوتی۔اسلام کی بنیاد عبادت نماز،روزہ،زکوۃ،حج ہے تو اس کی سٹرھی اخلاق میرے نبیؐ والے اخلاق ہی ہے جو ہم مکمل مسلمان ہونے کی تعلیم دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!