سماجیسیاسیمضامین

کیا ہندوستان اور پاکستان کے رشتے بہترہوں گے…!!!

راج شیکھرپاٹل، اشٹور

تقسیم ِ ہند کے سبب پاکستان وجود میں آیا۔ مشرقی پاکستان میں آزادی کی تحریک کے سبب بنگلہ دیش نے دنیا کے نقشہ پر جنم لیا۔اور اس حوالے سے آپس میں جونفرتیں پیدا ہوئیں یہ جدید تاریخ (Modern History)کاحصہ ہے۔ کئی مؤرخ اورمصنفین نے اس پر روشنی ڈالی ہے۔میں آزادی کے 16/سال بعد پید اہواہوں۔ 1980کومیں پی یوسی میں زیر تعلیم تھا۔1980کے عشرے کی جدید تاریخ خصوصاً ایشیاء اور امریکہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ہندوستان میں شریمتی اندراگاندھی ماہ ِ جنوری میں دوبارہ اقتدار پرواپس آگئی تھیں۔ مرارجی دیسائی اور چرن سنگھ کی جنتاپارٹی حکومت کے چلے جانے کے بعد اندراگاندھی کودوبارہ اقتدار نصیب ہواتھاجبکہ مذکورہ حکومت ملک کی پہلی نان کانگریس حکومت تھی جو 3سال سے بھی کم معیاد کے لئے اقتدا رپر رہی لیکن مسز گاندھی کی حکومت مضبوط اور مستحکم حکومت تھی، بمقابلہ جنتاپارٹی حکومت کے۔

امریکہ میں صدر جمی کارٹر جو ڈیموکریٹ پارٹی سے تھے، وہ الیکشن ہارگئے تھے۔ ریپبلکن پارٹی کے رونالڈ ریگن نے الیکشن جیت لیاتھا۔جمی کارٹر کی ہارکاسبب یہ تھاکہ وہ 52اغواشدہ امریکن(Hostages) کوایران سے چھڑالانے میں ناکام رہے تھے۔ ریگن نے امریکی عوام کو یقین دلانے میں کامیابی حاصل کی کہ میرے دور اقتدار میں امریکہ دوبارطاقتور ہوجائے گا۔ان کی امیج بندوق دھاری ہیروکی رہی۔وہ چونکہ ہالی ووڈاسٹار رہ چکے تھے۔ا س کااثر ان کی باڈی لنگویج پر تھا جس کو امریکیوں نے کافی پسند کیا۔

یہ وہ سال تھا، جب روس نے افغانستان پر قبضہ کیاتھا۔ ایران اور عراق جنگ بھی اسی عشرہ میں شروع ہوئی تھی۔کچاتیل کی قیمتیں مہنگی ہونے لگیں۔ اسی سال ماسکونے Summer Olympics کی میزبانی کی۔ امریکہ نے NATOاور دیگر دوست ممالک کو آواز دی کہ چونکہ روس نے افغانستان پر قبضہ کیاہے اسلئے وہ اولمپکس کا بائیکاٹ کریں۔ہندوستان نے کھیلوں کے ان مقابلوں میں حصہ لیالیکن پاکستان نے اس کابائیکاٹ کیا۔

ان ہی دنوں جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لاء اڈمنسٹریٹر تھے، وہ صدر پاکستان کی اپنی پوزیشن کو مضبوط و مستحکم کرنے میں لگے ہوئے تھے۔یہ مجاہد ین موومنٹ کے دورکا آغاز تھا۔ روس کو افغانستان سے مجاہدین کے ذریعہ نکال پھینکنے کی کوشش کاآغاز ہواتھا۔جنرل ضیاء الحق کے لئے یہ اہم ترین دور تھا۔ انھوں نے امریکیوں کا مکمل اعتماد حاصل کرلیاتھا۔ روس کو کنفیوژ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی گئی۔ ایک فوجی جنرل ہونے کے ناطے جنگ کی تباہیوں کووہ سمجھتے تھے۔ اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں مکمل بھروسہ (Trust Deficit)والارشتہ نہیں تھا۔لیکن جنرل ضیاء الحق نے ہندوستان کے ساتھ رشتوں کو معمول پر لانے اور بہتر کرنے کے اقدامات کئے۔

اس وقت پاکستان کے پاس قابل ترین وزیر خارجہ آغا شاہی اور صاحبزادہ یعقوب خان تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں مرارجی دیسائی حکومت کے وقت اٹل بہاری واجپائی اور اندراگاندھی کے زمانے میں پی وی نرسمہاراؤ جیسے قابل ترین وزیر خارجہ برسرخدمت تھے۔اسی دور میں ہندوستان کے سرحدی علاقے پنجاب میں مسائل کھڑے ہوگئے۔ پاکستان پر الزام تھا کہ وہ دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دیتاہے اور سکھ موومنٹ کاساتھ دے رہاہے۔ یہ مسائل جب سلجھے نہیں اور حالات بدسے بدتر ہوگئے تو حکومت ہند کو فوج بھیج کر حالات کوقابو میں کرنا پڑا۔دونوں ممالک کے درمیان Trust Deficitتھا، اسی کے ساتھ دونوں ممالک آپس میں راست بات چیت کے مرحلہ میں بھی داخل ہوچکے تھے۔بڑے پیمانے پر امریکی ہتھیار پاکستان کو دئے جانے کے خلاف ہندوستان کوسخت اعتراض تھا۔

امریکہ یہ کہتاتھاکہ جوہتھیاردئے جارہے ہیں وہ مجاہد ین موومنٹ کی مدد کے لئے ہیں۔دوسری جانب پاکستان کو روس کے ساتھ اچھے تعلقات اورہندوروس کے مشترکہ خلائی پروگرام پر اعتراض تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پہلا ہندوستانی خلاباز راکیش شرما کوروس کی مدد سے خلاء میں پہنچایاجاچکاتھا۔ ہندوپاک کی اپوزیشن پارٹیاں اپنے اپنے ملک میں دونوں حکومتوں کامذاق اڑاتی تھیں۔ اپوزیشن کاکہناتھاکہ حکومتوں کے بیانات تو انتہائی سخت ہیں لیکن دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان حالات نارمل ہیں۔دونوں ممالک کی عوام کا آنا جانا جاری تھا۔ آپس میں بات چیت تھی۔ دونوں ممالک کی کرکٹ اور ہاکی ٹیمیں روزانہ کی بنیاد پر کھیلوں کے مقابلے کے لئے دونوں طرف آتی جاتی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق ہندوستان کے دورہ پربھی آئے تھے جس وقت اندراگاندھی وزیر اعظم تھیں لیکن یہ اور بات ہے کہ اندراگاندھی نے اپنی پوری زندگی میں کبھی پاکستان کا سفر نہیں کیا۔ ان دونوں قائدین کے درمیان بہتر رشتے تھے۔ وہ ٹیلی فون کے ذریعہ اپنے خیالات اور نظریات کاتبادلہ کیاکرتے۔ اور ملکی و قومی تہواروں پر ایک دوسرے کو مبارک باد بھی پیش کیاکرتے تھے۔

اندراگاندھی کو ضیاء الحق کی ذہنی طورپر معذور بیٹی سے کافی لگاؤ تھا۔وہ اس کی خیریت دریافت کرتی تھیں۔ معروف کالم نگار مرحوم خشونت سنگھ اور آج کے بی جے پی قائد ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، فلمسٹار شتروگھن سنگھ نے جنر ل ضیاء الحق کے مہمان کے طورپر پاکستان کادورہ کیا۔

وزیر اعظم اندراگاندھی 1984 کو شہید کر دی گئیں۔ان کی آخری رسومات میں پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق شریک رہے۔1984 کے اواخر میں نئی حکومت راجیو گاندھی کی قیادت میں آئی جس نے انتہائی اکثریتی مینڈیٹ حاصل کرتے ہوئے جیت حاصل کی تھی چونکہ بھاری اکثریت انہیں حاصل تھی اس لئے اندرون ملک اور بیرون ملک پالیسیوں میں انھوں نے Pro Active رول اداکیا۔ مثلاًسری لنکا کے حدود میں واقع جافنا کے شہریوں کے لئے انھوں نے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر ضروری سامان وہاں کی حکومت کی مرضی کے خلاف شہریوں کی مدد کے لئے جہازوں سے پھینکاگیا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ بحری قذاقوں نے جزیرہ مالدیپ پر حملہ کردیاتھا۔ وہاں کے صدر مامون عبدالقیوم نے ہندوستانی حکومت سے مددمانگی جس پر ہندوستانی فوج کومالدیپ روانہ کیاگیا۔ وہاں پہنچ کر ہندوستانی فوج نے بحری قذاقوں کے حملوں کو پوری طرح ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

اِن دوواقعات کی بناپر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ فکرمند ہوگئی۔یہ وہ وقت تھاجب ہندوستان کی بھاری اکثریت والی حکومت کے چلتے پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی سے ریاست باہر آ رہی تھی۔پاکستان اور ہندوستان کے درمیان رشتے بہتر ہونے لگے تھے۔ اس کو ”کرکٹ ڈپلومیسی“ سے منسوب کیاگیا۔ صدر ضیاء الحق نے جئے پور (راجستھان) کا دورہ کیاتاکہ وہ ہندوپاک کا کرکٹ میچ دیکھ سکیں۔ انڈیا کے کھلاڑیوں کو انھوں نے وہاں ”کارپیٹ“کاتحفہ دیا۔ ان ہی حالات کے بین بین Tit for Tatڈپلومیسی بھی جاری رہی۔ ہندوستانی حکومت نے پاکستان کے خان عبدالغفار خان کو ”بھارت رتن“ ایوارڈ دینے کااعلان کیا۔ جنہیں فرنٹیر گاندھی (سرحدی گاندھی)کہاجاتاہے۔اس کے جواب میں پاکستان نے سابق وزیر اعظم مرارجی دیسائی کو پاکستان کا سب سے بڑا ایوارڈ ”نشانِ پاکستان“ دینے کااعلان کیا۔اس کاسبب یہ تھا کہ وزیراعظم مرارجی دیسائی اور وزیرخارجہ واجپئی نے 1977 کے بعد پاکستان سے دوبارہ رشتے استوارکئے۔ جو بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد ٹوٹ چکے تھے۔

جب مجاہدین موومنٹ افغانستان میں اپنے عروج پر تھا، اس وقت پاکستان کے بہاولپور میں اک ہوائی حادثہ اگست1988میں ہوا جس میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق ہلاک ہوگئے۔

ہندوستان سے صدر جمہوریہ ہند آروینکٹ رمن کی قیادت میں ایک وفدان کی میت میں شریک رہا جن میں اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپئی، نٹورسنگھ اور دیگر شامل رہے۔ اس وقت اٹل بہاری واجپئی نے جوبیان دیاتھا وہ کافی دلچسپ اور عوام کی توجہ کامرکز رہا۔انھوں نے کہا”وہ (ضیاء الحق) اصلی چیز تھے۔ جنہوں نے امریکہ کو پٹایا، روس کو چکرایا اور ہمیں ستایا“80کی اس دہائی کے ختم سے قبل ہندوستان اور پاکستان نے اپنے دوبڑے قائدین اندراگاندھی اور جنرل ضیاء الحق کو کھودیا۔ان دونوں کی اپوزیشن پارٹیاں بھی کافی عزت کرتی تھیں۔ انھیں کبھی Incompetentنہیں سمجھاگیا۔

جنرل ضیاء الحق کے دو رکے بعد پاکستان میں مستحکم حکومتوں کادور نہیں رہا،حکومت اور فوج کے درمیان نااتفاقی مقدررہی جس کے سبب حکومتوں کو استحکام نہیں ملا۔ ما سوائے پرویز مشرف حکومت کے۔اٹل بہاری واجپائی اور پرویزمشرف کی ”آگرہ ملاقات“ ہوئی جس کو ناکام تو نہیں کہاجاسکتا لیکن و ہ ثمر آور بھی نہیں رہی۔ اس سے قبل نوا زشریف کے دور میں واجپائی بس کے ذریعہ لاہور پہنچے تھے تاکہ دونوں ممالک کے آپسی رشتے بہتر ہوں۔ کہاجاتاہے کہ اس ملاقات کو پاکستانی فوج کاسپورٹ نہیں تھا۔جس کے نتیجہ میں کارگل میں گھس پیٹھ کی گئی،اور دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی۔ منموہن سنگھ کی 10سالہ حکومت 2004تا2014کے درمیان دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ایک دوسرے کے ملک کو بات چیت کے لئے گئے لیکن کامیابی ہاتھ نہ آئی۔اس کے باوجود پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی انڈیا پاکستان 2011کا ICC سیمی فائنل ورلڈ کپ کرکٹ دیکھنے چندی گڑھ آئے تھے۔

پچھلے 10-15سال کے واقعات کو میں دوہرانا نہیں چاہتا کیونکہ اس دوران پاکستان اور ہندوستان کے رشتوں کے لئے ایسا کچھ نہیں کیاگیاجس کو اچھا کہاجاسکے۔ ہندوستان اور پاکستان کی نئی نسل پرامید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کی بہتری تب ہوگی جب دونوں ممالک کی باگ ڈور ایسے قائدین کے ہاتھ میں ہوگی جنہوں نے ہندوپاک تقسیم کے دردناک واقعات کو نہ دیکھا اورنہ جھیلاہوگا۔آج جبکہ ان ممالک کی باگ ڈور تقسیم ہند اور تشکیل پاکستان کے بعد کی نسل کے قائدین کے ہاتھوں میں ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دونوں ممالک کے رشتے بدستور کڑواہٹ کی دیوار پرکھڑے ہیں۔بدنصیبی کی با ت یہ ہے کہ دونوں نیوکلیر ممالک اس طرح کا بیان دے رہے ہیں کہ ہم نے شب برأت یادیپاولی منانے کیلئے نیوکلیر بم اپنے پاس نہیں رکھ چھوڑے۔

پھر بھی کیا امید کی جاسکتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان رشتے عنقریب نارمل ہوجائیں گے؟کیا ہم ان ثقافتی سرگرمیوں کو دیکھ پائیں گے جس طرح معروف شاعر کنورمہندرسنگھ بیدری سحر، کرشن بہاری نور اوردیگر نے پاکستان جاکر انجام دیا تھا۔ اسی طرح گلوکارہ نورجہاں اورعمر شریف سطح کے فنکاردوبارہ ہندوستان آپائیں گے؟

مجھے امید ہے، مثبت سوچ ہندوستان اور پاکستان کی لیڈرشپ اور عوام دونوں میں آئے گی جس کی بدولت Trust Deficitہی نہیں بلکہ تمام قسم کی غلط فہمیاں بھی دونوں ممالک کے درمیان سے پوری طرح دور ہوجائیں گی۔ہمیشہ حالت جنگ میں رہنے والے دو ممالک اسرائیل اورفلسطین کو مشترکہ طورپر امن کا نوبل انعام دیاجاتاہے۔ تو کیوں نہیں انڈیا اور پاکستان کو عنقریب مشترکہ طورپر امن کانوبل انعام ملے گا؟۔ ایتھوپیا کے آبے احمد نے مشرقی افریقہ میں اپنے پڑوسی ملک ائرٹیریاکے ساتھ جو کئی سال سے حالت جنگ میں تھے،بہتر تعلقات قائم کئے جس پر انہیں 2018کا نوبل انعام برائے امن دیاگیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایسے قائدین عنقریب ابھر کر سامنے آئیں گے جو ان دو نیوکلیر طاقتوں کو نوبل انعام برائے امن دلاسکیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!