نظم

مجبور لڑکی

اسماء نوشین، بسواکلیان

یونہی ایک دن چلتے چلتے
جا بیٹھی سمندر کے کنارے
دیکھا جو ساکن لہروں نے مجھے
تو پوچھا کیوں ہوا اداس بیٹھے

کہا میں نے میں ہوں ایک مجبور لڑکی
وقت کے ستم ڈھائی ہوئی
کچھ نہ سمجھ آئے نہ جی سکوں نہ مرسکوں
زندگی بن گئی ہے ایک بوجھ سی

کہا سمندر نے یہ کیا دھن ہے تجھ پہ چھائی
سمندر سے گہری ہےتیری گہرائی
تیری سوچ کے آگے ہر کوئی پست ہے
تو جو چاہے تو مل جائے گدا کو بادشاہی

پھر راہ میں ایک باغ سے ہوا گزر
میں ٹہر گئی ایک پھول دیکھ کر
کیا پھول نے بھی سوال وہی
میں نے حالِ دل سنایا سبھی

کہا پھول نے سن بات تو ذرا
مایوسی کا حجاب اٹھا تو ذرا
مانا عورت ہے مانند پھول کے
اڑجائے تو دنیا کو جھکائے نہ مانے تو ذرا

پھر بھی نہ آیا قرار دل کو میرے
میرے قدم راستہ کی اور بڑھے
تھا جو ایک پہاڑ سامنے
سن رہا تھا دیر سے بات کو میرے

کہا پھاڑ نے سنا ہے بارے میں تیرے
چٹانوں سے بھی مضبوط ہیں ارادے تیرے
تو کیوں یہ مجبوری یہ لاچاری
ہے زمانہ بھی سوچ و ارادے سے تیرے

ہاں میری بھی بات سمجھ میں آئی
اسلام نے بھی عورت کی عظمت ہے بتائی
ہے جہاں میں انمول شئے جو مہکؔ
عورت ہی وہ چیز ہے جو خدا نے بنائی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!