سماجیمضامین

ضروربولیے۔۔۔ مگراحتیاط کے ساتھ!

جاوید اختر بھارتی

بابری مسجد کے اندر 1949 میں مورتی رکھی گئی پھر تالا لگا دیا گیا معاملہ عدالت میں چلا گیا درمیان میں مختلف مراحل پیش آتے رہے ایسا بھی موقع آیا کہ تالا کھول کر اس میں ہندو مذہب کے لوگوں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت بھی دیدی گئی لیکن مسلمانوں کو اذان اور نماز کی اجازت نہیں دی گئی مسلمانوں کے اندر بیچینی بڑھتی رہی آخر کار 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو فرقہ پرست طاقتوں نے شہید کردیا غرضیکہ بابری مسجد کی ایک طویل تاریخ ہے لمبی داستان ہے عدالت میں دلائل پیش ہوتے رہے فریقین ثبوت پیش کرتے رہے وکلاء بحث کرتے رہے معاملہ ضلعی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک پہنچا اب جاکر حال ہی میں سماعت مکمل ہوئی اور اب فیصلے کا انتظار ہے۔

مسلمانوں کی طرف سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمیعت علماء ہند نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اس معاملے میں مولانا ارشد مدنی نے بڑی قربانیاں دی ہیں ہمیں مزید تفصیلات میں نہیں جانا ہے موجودہ وقت میں کچھ لوگ پینترے بدل رہے ہیں اس پر ہمیں کچھ کہنا ہے اب مسلمانوں کو بڑی بے صبری سے بابری مسجد کے فیصلے کا انتظار ہے اب ایسے وقت میں چند لوگ میدان میں نظر آنے لگے اور مشورہ دینے لگے کہ بابری مسجد سے مسلمانوں کو دستبردار ہوجانا چاہیے بابری مسجد کو رام مندر کی تعمیر کے لیے ہندو بھائیوں کے حوالے کردینا چاہیے اس سے بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوگا ملک میں امن و سلامتی کا ماحول قائم ہوگا ایک دوسرے کے تئیں محبت پروان چڑھے گی۔

حالانکہ اس تجویز سے خود مسلمانوں کے اندر درار پیدا ہوگی نااتفاقی پیدا ہوگی اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ ساری ذمہ داری مسلمانوں کی ہی ہے جمہوریت کو مستحکم کرنا، سیکولرازم کو بڑھاوا دینا امن و بھائی چارہ قائم کرنا کیا مسلمانوں کے علاوہ اور کسی کی ذمہ داری نہیں ہے آپ لوگوں کے نظریات، خیالات اور بیانات تو خود مسلمانوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں گویا خود آپ لوگوں کو اپنی قوم پر اعتماد نہیں ہے کم از کم اتنا تو سوچنا چاہیے کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کونسا ایسا میدان ہے جس میں مسلمانوں نے حصہ نہیں لیا ہے جب جب بھی ملک کے وقار کا مسئلہ آیا ہے تو مسلمانوں نے آگے قدم بڑھایا ہے آج آخر آپ لوگوں کے ذہنوں میں کیوں ایسی باتیں اگئیں کہ آپ اپنی ہی قوم کو اپنی عبادتگاہ سے سبکدوش ہونے کا مشورہ دینے لگے۔

جب مسجد کی تعمیر کا مسئلہ آتا ہے تو احادیث بیان کی جاتی ہیں کہ مسجد کی تعمیر میں حصہ لو اللہ تمہارے لئے جنت میں محل تعمیر کریگا اب یہ بھی بتانا چاہئے کہ اپنی مسجد کسی دوسرے کے حوالے کردو تو بدلے میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کیا دے گا چاہے وہ سنی وقف بورڈ ہو یا اور کوئی شخصیت ہو انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ قوم کے نظریات کیا ہیں قوم کے جذبات کیا ہیں اور قوم کے جذبات کی صحیح ترجمانی کرنے والا ہی معزز ہو سکتا ہے اور سرخرو ہوسکتا ہے آج قوم مسلم بابری مسجد کا فیصلہ چاہتی ہے اور سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد کرتی ہے اور دلائل و شواہد کی بنیاد پر اچھی امیدیں بھی رکھتی ہے یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسجد اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے تو کیا ضرورت پیش آگئی کہ کچھ لوگ اللہ کے گھر کو ہی نیلام کرنے یا دوسروں کو دینے کا مشورہ دینے لگے یاد رکھیں کہ آپ لوگ مسلمان ہوتے ہوئے بھی بابری مسجد کے دشمن کہلائیں گے، بابری مسجد کے مخالف کہلائیں گے قوم کو غلط مشورہ دینے والوں میں شمار کئے جائیں گے اگر سیاستداں ہیں تو مفاد پرست کہلائیں گے، عالم ہیں تو علمائے حق نہیں بلکہ علمائے سو کہلائیں گے۔

رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم کسی کو مشورہ دو تو نیک مشورہ دو، امانتدارانہ مشورہ دو ہرگز ہرگز خیانت کی راہ پر لگنے والا مشورہ نہ دو اور یاد رکھو کہ خائن مشورہ دینے والا مومن نہیں ہوسکتا اب ان لوگوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم کس زمرے میں آتے ہیں ہمیں یہ بھی غور کرنا چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ کلمہ حق کا ماننے والا اپنی کارکردگی سے متعلق دنیا میں بھی جوابدہ ہے اور آخرت میں بھی جوابدہ ہوگا دنیا میں کوئی ذمہ داری کوئی عہدہ حاصل ہوا ہے مثلاً بادشاہ ہے تو رعایا کا ذمہ دار ہے، دیگر کسی عہدے پر فائز ہے تو اپنے سے نیچے والوں کا اور اس عہدے سے منسلک تمام افراد کا ذمہ دار ہے۔

یعنی سب کے ساتھ انصاف کرنا اس کی ذمہ داری ہے عہدے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی اجازت مذہب اسلام نہیں دیتا اور جو جس عہدے پر ہے تو اس سے جتنی چیزیں وابستہ ہیں وہ سب کا محافظ ہے مالک ہرگز نہیں ہے اور مولانا ارشد مدنی نے وقف بورڈ کے بارے میں جو کچھ کہا وہ حق بجانب کہا بابری مسجد سے متعلق ان کا نظریہ قابل تعریف ہے ایک لمبی مدت کے بعد بابری مسجد کے فیصلے کی گھڑی آئی ہے وہ بھی سپریم کورٹ سے تو جو لوگ مقدمہ لڑرہے تھے ان پر مکمل اعتماد کرنا چاہیے اور مسلمان اکثریت سے ان پر اعتماد کرتے بھی ہیں اس لیے کہ سنی وقف بورڈ کی کوئی بھی بہتر اور نمایاں کارکردگی کبھی کسی موقع پر دیکھنے کو نہیں ملی ہے بہتر تو یہی تھا کہ یہ لوگ خاموش رہتے اور اب بھی وقت ہے اپنی زبانیں بند کرلیں اور خاموشی اختیار کر لیں ورنہ پھر وہی بات کہی جائے گی کہ اس ملک میں مسلمانوں کو نقصان مسلمانوں سے ہوا ہے۔

ویسے ہی یہ بات تلخ ہے لیکن حقیقت بھی ہے کہ بابری مسجد کے نام پر کتنے لوگوں کو بنگلہ مل گیا، کتنے لوگوں کو عہدہ مل گیا، کتنے لوگوں کو لال بتی مل گئی اور کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بابری مسجد کے نام پر عیش و آرام حاصل کیا اور جب سب کچھ مل گیا تو بابری مسجد کو بھول گئے آخر میں میں اس بات کا بھی ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ مسجد اللہ کی ملکیت ہے، اللہ کا گھر ہے اس سے بغاوت کرنے والے کو تاریخ کبھی معاف نہیں کریگی اور قوم بھی کبھی معاف نہیں کریگی بعد میں سنی وقف بورڈ کی طرف سے صفائی بھی پیش کی گئی ہے اور لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن معاملہ کچھ نہ کچھ تو ہے تبھی تو مولانا ارشد مدنی اور مولانا احمد بخاری دونوں نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے سخت بیان دیا –

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!