Uncategorized

ہے سیاست سے تعلق توفقط اتنا کہ۔۔۔ کوئی کم ظرف میرے شہر کا حاکم نہ ہو

ہندوستان اس وقت تاریخ کے بدترین دورسے گزررہا ہے اور اس ملک پر ظالم طاقتوں کا قبضہ ہوگیا ہے اوریہ طاقتیں ملک کو تباہی وبربادی کی طرف لے جارہی ہیں ظالموں کی قیادت 2002کے گجرات کے بھیانک فسادات اور بگڑتے ہوئے حالات ۔ان چھ سالوں میں انہوں نے ایک ہی کام بڑی منصوبہ بندی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ہے۔اور وہ یہ کہ مسلمانوں اور دلتوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑکر ان میں ڈروخوف کی کیفیت برقرار رکھنا تاکہ وہ کسی اور مسئلے پر سوچ ہی نہ سکے۔

ہندوستان میں جمہوریت کا نظام رائج ہے جمہوریت میں ہر طرح کی آزادی ہوتی ہے۔ یہاں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں ان کا مذاہب جدا جدا ہونے کے باوجود ان کا دل ہندوستانی ہے۔ جمہوریت اس نظام کو کہتے ہیں جس میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنے نمائندوں کوایک مخصوص وقت تک اقتدار کے لئے منتخب کرتا ہے۔ اور یہ نظام کامیاب نظام سمجھا جاتا ہے۔مگر اس کے معنی ہی بدل دیئے گئیں ہیں آج اس کے معنی کچھ اور ہی ہیں۔ جو زیادہ ووٹ خریدسکے جس کی لاٹھی اس کی بھیس کے معنوں میں بدل گئے۔

جمہوریت کے مطابق سبق آموز واقعہ۔ہٹلر ایک مرتبہ اپنے ساتھ ایوان میں ایک مرغا لے کر آیا اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پنکھ نوچنے لگا،مرغا درد سے بلبلاتا رہا مگر ہٹلر نے ایک ایک کرکے اس کے سارے پنکھ نوچ کر مرغے کو زمین پر پھینک دیا، اورجیب سے کچھ اناج کے دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دیئے اور دھیرے دھیرے چلنے لگا،تو مرغا دانا کھاتا ہوا ہٹلر کے پیچھے چلنے لگا،ہٹلر دانا پھینکتا گیا اور مرغا دانا کھاتا ہوا اس کے پیچھے چلتا رہا۔ آخر کار وہ مرغا ہٹلر کے پیروں میں آکھڑا ہوا،ہٹلر نے اسپیکر کی طرف دیکھا اور ایک تاریخی جملہ کہا ”جمہوری ملکوں میں عوام اس مرغے کی طرح ہوتی ہے،ان کے لیڈرعوام کا پہلے سب کچھ لوٹ کر انھیں اپاہیج کردیتے ہیں۔ اور بعد میں انھیں تھوڑی سی خوراک دے کر ان کے مسیحا بن جاتے ہیں“۔ موجودہ دور کے حالات دیکھ کر اس جملے کی تصدیق پوری طرح ہم پر ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے لیڈر بھی ہمارا حال بھی اس مرغے کی طرح کردیتے ہیں اور پھر بھی ہم کے جھوٹے وعدوں کے جال میں بآسانی پھنس جاتے ہیں.

سب کو برابر کا حق دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریسی کے وزن دار لفظ ہیں۔ہندوستان کا قانون ہمیں یکوال رائٹ کا حق دیتا ہے لیکن آج کا پولیٹکل رائٹ نے اس کا مطلب ہی بدل دیا ہے۔یہاں صرف ان کی حفاظت اور ان ہی راج ہے۔وہ چاہے ریپسٹ ہو،کرائم کرنے والا ہو،چور ہو یا موب لچنگ کرنے والا ہو۔

ایسے حالات کاہم نے آزادی سے پہلے بھی مقابلہ کیا کہ لوگ ڈر کے مارے انگریزی حکومت کے غلامی کو منظورکرلیتے تھے۔اور ان کی چاپ لوسی کرلیا کرتے تھے۔اور انگریزی حکومت کی پالیسی تھی۔”دیوائڈ اینڈ رول“یہی پالیسی پر آج کے موجودہ لیڈر بھی فالوور ہیں اس کو اپنا ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اور ہماری ہی خاموشی کے وجہ سے ایسی سیاست وجود میں آئی ہے۔ایسی حکومت کل بھی نقصان دہ تھی اور آج بھی نقصان دہ ہے۔

سنو لو یہ فاسد طاقتیں تم یہ نفرت کی سیاست پھیلانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔تم کتنی ہی کوشش کرلو ہم تمہیں اس مقصد میں کامیا ب نہیں ہونے دینگے۔ ہم ایک مضبوط چٹان کی طرح تمہارے خلاف کھڑے ہونگے۔آج ہندوستان کی حالت بہت زیادہ پست ہے۔آرٹیکل 370 کو نکال کر تمام ہندوستانیوں کی طرح کشمیریوں کو بھی پورا حق ملے گا۔کہاں مل رہا ہے ان کا حق کئی دنوں سے کشمیریوں کو قید کرلیے گئے ہیں ان کو آزادی کا حق نہیں مل رہا وہاں کرفیو ہے۔ان کو ڈیموکریڈٹ رائیس توکیا بیسک نیچریل ہومین رائیس بھی نہیں مل رہا تھا۔ وہاں کا انٹرنیٹ،فون ہر طرح کے رابطے بند کردیئے گئے ہیں۔یہاں تک کہ مسجدوں میں جانا تک بھی منا ہے۔اگر کسی اگرکی موت ہوگئی ہوتو اس کے آخری رسوما ت تک کرنیکے لیے بہت سے مشکلات درپیش ہورہے ہیں۔

کہنا بہت آسان ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔حقیقت کے تحت پہونچنے کیلئے آپ کو اپنا غیر ملکی دورہ کو چھوڑ کر اپنے ہندوستان میں وقت دینا چاہئے۔خوف کرے ان مظلوموں کی ہائے سے کہی قدرت کا قہر تم نہ برسے۔اب تو لگتا ہے کہ قدرت کا قہر برسنا چھوڑوں ہوگیا ہے۔جی ڈی پی۔8%سے لے کر 5%تک ہوگئی۔ آٹو موبائل کمپنی بند ہورہی تاجروں کا حال برا ہے۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق ان امپلائمنٹ کی شرح بڑھ گئی ہے۔کرسی بھی نیچے گرگئی ہے۔یہاں تک عام آدمیوں کادو وقت کا کھانا بھی مشکل ہوگیا۔ہندوستان کی economic conditionقریب ہوگئی ہو۔بہت ہوچکی ہندوستان کی غریب عوام کی حق کے پیسیوں میں غیر ملکی دورے آپ تو کہتے ہیں کہ میں فقیر ہوں جھولا لیکر چلا جاوں گا تمام ہندوستانیوں کا کیا ہوگا۔

ایک وقت تھا کہ ہم ڈرتے تھے بے معنوں سے،غداروں سے،ظالیموں سے،حفاظت کی کیا امید کرے ان حکمرانوں سے جب اپنا گھر لوٹ رہا ہے اپنے ہی چوکیداروں سے۔ جو بات تو کرتے ہیں ”بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کی“ دکھا کر خواب محلوں کا،یہ غربت لوٹ لیتے ہیں وطن کی آبرو اور اس کی زینت،لوٹ لیتے ہیں جونعرہ دیتے ہیں بیٹی،بچانے اور پڑھانے کا وہی نامرد معصوں کی عزت لوٹ لیتے ہیں۔

عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈرلگتا ہے۔ڈنکے کی چوٹ پر میں کہتی ہوں مجھے ظالموں سے ڈر نہیں لگتا ہے مجھے سولی سے نہ زندانوں سے ڈرلگتا ہے۔ہمارے حکمران ایسے ہیں جو ووٹ مانگتے وقت بے حیا اور بے شرم بن جاتے ہیں اورجب اقتدار پر آجاتے ہیں تو ملک کی حالت کو خستہ کررہے بلکہ آنیوالی نسلوں کو گداگری جیسے شرمندناک عادت سے متعارف بھی کرارہے ہیں۔چند روپیوں کے خاطر اس ملک کی عزت اور غرت کو نیلام کرنے والے یہ حکمران جو صرف اپنے لیے جیتے ہیں ان کو غریب سے کوئی واسطہ نہیں کسی عورت سے کوئی ہمدردی نہیں آج ہندوستان آزاد ملک ہونے کے باوجود وہی غلام ملک بن گیا جس کو آزاد کرانے کی خاطر کئی شہید نے اپنے خون سے سجایا تھا، کئی عورتوں نے اپنی عصمتوں کو سرے بازار نیلام کیا تھا،کئی مسلمانوں نے اپنے لہوسے اس گلستان کو بنایا تھا کیا یہی ہے وہ ہندوستان جس کے لیے اتنی ساری قربانی دی گئی اور جس ملک کی جمہوریت کا نظام بہتر تھا۔

مضبوط جمہوریت کے لئے میڈیا کی ذمہ داری اہم ہوتی ہے۔ایک وقت تھاجب خود وزیراعظم کوبھی نہیں بخشا جاتا تھا۔ سب سے زیادہ طاقتور وزیرکی سخت سے سخت تنقید کے بعد بھی ایک صحافی آرام سے سب کھیلتا تھا اور اگلے دن اپنے کام یاوقار کھونے کے خوف کے بغیر ہی آفیس آجاتا تھا۔لیکن اب ایسا ہی لگتا خوف اور دہشت کا ماحول ہے۔ایسے ماحول کو بولنے کی آزادی اور جمہوریت کے ماحول میں زہر گھولنے کے برابر کہیں نگے۔

آزادی حاصل کرنے کے کئی سال کی جدوجہد کے بعد ہندوستانی جمہوریت کی تاریخ میں ’ایمرجنسی‘ سب سے سیاہ باب تھا۔ اس وقت کی وزیراعظم مسز اندراگاندھی کی طرف سے قومی سلامتی کی نام پر ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ اپوزیشن کے وجود کو انتہائی وحشیانہ طریقے سے خارج کردیا گیا تھا اور پریس کی آزادی کو ختم کردیا گیا تھا۔ اپوزیشن کے تمام اہم رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ جتنا پارٹی کی تحریک کے بعد شاہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طورپر34988 لوگوں کو میسا کے سخت ایکٹ کے تحت اور75818لوگوں کو ڈیفس آف انڈیا قوانین کے تحت جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔

آج جب ہم پریس کو دیکھتے ہیں تو مجھے اڈوانی جی کے وہ الفاظ بہت یاد آتے ہیں، لیکن اس میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ آج کوئی ایمرجنسی نہیں ہے، بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جارہی،اپوزیشن حراست میں نہیں ہے اور پریس کی آزادی برقرار ہے، لیکن آج کے میڈیا کو دیکھتے ہوئے اس کے طرزعمل پر شدید سوال ضرور اٹھ رہا ہے،میڈیا کے ایک بڑے حصے نے اپنا ضمیر کھودیا ہے اور وہ تمام لوگ بے حس صحافیوں کی طرح برتاؤ کررہے ہیں۔

یہ وقت بھی دیکھا تاریخ کی نظروں نے لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزاپائی۔ وطن ہمارا ہے اس لئے کچھ کرگذرجائیں رشتہ ہے ہمارا ہندوستان سے کچھ کرجائیں۔ دل ہمارا ایک ہے ایک ہے ہماری جان ہندوستان ہمارا ہے ہم سب کی ہے یہ شان۔ وطن گھر کی طرح ہوتا ہے اس سے محبت کرنے کیلئے ہمارے رسولللہ ﷺ نے فرمایا یہ بھی ایمان کا ایک رکن ہے۔یا اللہ اس ملک کو ایسے بے ایمان حکمرانوں سے حفاظت فرما اس ملک کے تمام لوگوں کی حفاظت کرنا اور اس ملک کی تمام بہنوں اور ماؤں کی عزت کی حفاظت کرنا ظالم کو کبھی کامیاب نہ ہونے دینا۔ امین

ہے سیاست سے تعلق توفقط اتنا کہ۔۔۔
کوئی کم ظرف میرے شہر کا حاکم نہ ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!