اِدارہٴ ادبِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس
(چوتھی قسط)
رپورتاژ: محمد یوسف عبدالرحیم بیدری
ڈاکٹر سلیم خان ایک اچھے ناول نگار کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار افسانہ نویس بھی ہیں۔ کرداروں سے ان کامعاملہ وہ نہیں ہوتا جوروایت میں ہے، اس حوالے سے ڈاکٹر سلیم خان کو روایت شکن کہہ سکتے ہیں۔ انسانوں سے بھی یہی کچھ کربیٹھتے ہیں۔ بہت سے احباب سیڑھیوں کے ذریعہ اوپر کی منزل کارخ کئے ہوئے تھے۔ ایسے میں ڈاکٹر سلیم خان کامیرے آوا زدینے پرنیچے اترآنا ان کے روایت شکن ہونے کی واضح دلیل ہے۔ وہ وہیں کھڑے ہوکرمجھے اوپر طلب کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے وسیم احمد صاحب سے انہیں ملایا۔ تو ہنس کر ان کے گلے لگ گئے اور کہا”میں وسیم احمد صاحب کو جانتاہوں۔ ہم پرانے دوست ہیں“ ڈاکٹرسلیم خان ہر کسی کو دوست کہنے میں آگے رہتے ہیں بلکہ ان کاایک لاشعوری تکیہ کلام دوست بھی ہے۔
اچانک ہی کانفرنس کے کرتا دھرتا جناب ریاض احمد تنہا اوپر سیڑھیوں پر نمودار ہوگئے اور ہم دونوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ”نیچے اپناسامان رکھ کر ناشتے کے لئے چلے آئیں“ میں او روسیم احمد نیچے جانے لگے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ وسیم احمد صاحب کو نیچے آنے کی ضرورت کیاہے؟ میں نے وسیم احمد صاحب سے بمشکل ان کابیاگ حاصل کیا، اپنااور ان کابیاگ نیچے رکھنے چلاآیا۔ یہاں بہت سے شعراء اور ادباء پہلے سے موجودتھے۔ کچھ لیٹے ہوئے تھے۔ کچھ اپناسامان دیکھ رہے تھے اور کچھ دیگر کام میں مشغول تھے۔ مجھے چکبالاپور، بیجاپورکے شعراء نظر آئے۔ ادارہ ادب ِ اسلامی ہند کے قومی صدر جناب شاہ رشادعثمانی بھی موجودتھے۔شیموگہ کے شاعر اور نقاد جناب اطہر اللہ شیموگوی بھی نظرآئے۔ اچانک ہی بنگلور کے ممتازافسانہ نویس جناب فیاض قریشی میرے بالکل سامنے آگئے۔ میں نے انھیں سلام کرتے ہوئے معانقہ اور مصافحہ کیا۔ وہ بڑے خوش ہوگئے اور دریافت کیا ”یوسف صاحب کب آئے“ میراجواب سب کے لئے ”ابھی آیا“کے علاوہ اورکیا تھا۔پھر میں اوپر کی منزل کی طرف چلاآیا۔ میں اور وسیم احمد جس وقت ناشتہ کیلئے ہال میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ کئی ایک شاعر، ادیب، مضمون نگار ناشتے کے انتظار میں گفتگو میں مصروف ہیں۔ وہاں مجھے بزرگ شاعر جناب مظہر محی الدین نظر آئے۔ انھوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر بیٹھے بیٹھے مصافحہ کیااور کہاکہ ہاتھ کی انگلیوں میں تکلیف ہے اور حال ہی میں حادثہ سے گزرا ہوں۔ میں نے ہمدردی جتاتے ہوئے افسوس کا اظہا رکیا۔ ان کے عقب میں وسیم احمد صاحب بیٹھ گئے تھے۔میں بھی ان کے بازو بیٹھ گیا۔
اتنے میں ڈاکٹر سلیم خان کی زوردار آواز سنائی دی۔ دیکھاکہ وہ مہاراشٹر کے کچھ شعراء اور ادباء کے ساتھ ہمارے سامنے کی صف میں بیٹھے گفتگو کررہے ہیں۔ جن میں ایک لمبے تڑنگے سے شخص بھی شامل تھے۔ جو سنبھل سنبھل کر گفتگو کررہے تھے ایسا لگتا تھاجیسے وہ کسی بھی لفظ کو یوں ہی منہ سے نہیں نکالیں گے۔بلکہ پوری ذمہ داری کے ساتھ الفاظ باہر نکلیں گے ورنہ ان کامنہ ہی میں رہنا بہتر ہے۔میرے دریافت کرنے پر وسیم احمد صاحب نے بتایاکہ وہ ممبئی کے اسلم غازی ہیں۔میں نے سعودی عربیہ میں قیام کے دوران ماہنامہ”پیش رفت“ دہلی میں اسلم غازی کی دل موہ لینے والی تحریر یں پڑھی تھیں۔ آج انھیں دیکھنے کااتفاق بھی ہوگیا۔ پہلے سے دل میں ان کے لئے عقیدت تھی۔ اس کا اظہار کیسے کروں۔ یہ سوچ رہاتھا۔ گفتگو میں مخل ہونا درست نہیں تھا۔ ناشتہ آنے کااعلان ہوا۔ ناشتہ کیاتھا،بس روا پروس دیاگیاتھا،ساتھ میں چٹنی تھی۔ حیدرآباد میں اس طرح کا”ویج ناشتہ“کھاتے ہوئے مجھے شرم آرہی تھی۔ سوچ رہاتھاکہ شاید حیدرآباد بدل رہاہے۔ ملک بدل رہاہے تو حیدرآباد کی مہمان نوازی بھی بدلے گی نا؟
سبھوں نے ناشتہ کیا لیکن چہروں سے ایسا نہیں لگ رہاتھاکہ ناشتہ سے بہت زیادہ خوشی ہوئی ہو۔ اسلامی ادب کے فنکاروں کے احساسات جلد ی سے باہر آ نہیں جاتے۔ چہرے پر ہی ٹکے رہتے ہیں۔ زبان پر آنے اور اونچی آواز میں ڈھلنے میں کافی دیر لگتی ہے۔تاہم یہ خوبی ان کے افسانوں میں شاذہی دیکھنے کوملے۔ ہرفنکار نصیحت کا پٹارا کھولنا اپنافرض سمجھتاہے اور اسطرح اپنے فن کو برتنے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ بہرحال ناشتے کے بعد چائے کا انتظار تھا۔ اسی درمیان میں میں نے ڈاکٹر سلیم خان کے ساتھ سیلفی لے لی اور سوشیل میڈیا کے حوالے کردیاگیا تاکہ میرے ہمارے چاہنے والے بھی ہم سے باخبر رہ سکیں۔ چائے سے فارغ ہونے کے بعد ہم نیچے قیام گاہ چلے آئے۔
قیامگاہ میں وسیم احمد صدر ادارہ ئ ادب اسلامی تلنگانہ اور ڈاکٹر سلیم خان میں زوردا ر بحث چل نکلی۔ وسیم احمد صاحب کااعتراض تھاکہ ڈاکٹر صاحب آپ کی ناولوں میں کردار بہت ہوتے ہیں۔ا ور وہ بہت زیادہ گفتگو کرتے ہیں۔ جس کے سبب پتہ نہیں چلتاکہ کون کیا کررہاہے، کیاکہہ رہاہے؟ اور پھر آپ کے کم پڑھے لکھے افرادبھی اونچی باتیں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم خان کے چہرے پر غصہ تھا جو میں نے پہلی دفعہ دیکھا۔ انھوں نے اسی حالت میں وسیم احمد صاحب سے پوچھا”آپ لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ کوئی کم پڑھالکھا فرد عقل کی بات نہیں کرسکتا۔ کوئی اچھا مشورہ نہیں دے سکتا۔ اس سے اونچی بات کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ میں سمجھتاہوں یہاں ہمیں اپناجائزہ لینا چاہیے۔ایک دانشور شخص بھی غیرذمہ دارانہ بات اور نچلی سطح کی گفتگو کرسکتاہے جبکہ ایک کم پڑھالکھا شخص بھی بہترین مشورہ دے سکتاہے۔ اونچی باتیں وہ بھی کر سکتاہے۔ ذہانت اورفطانت پر تعلیم یافتہ افراد ہی کاقبضہ نہیں ہوتا“ ”اچھامیری بات سنئے آپ لوگ“ میں نے ان دوبڑوں کے درمیان میں مداخلت کرناچاہی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دوبڑے جب گفتگو کررہے ہوں تو عوام کو بیچ میں نہیں بولنا چاہیے۔
ملک کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان عوام گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ جہاں کہیں تیسری پارٹی نے آواز بلند کی وہاں تیسرے پارٹی کافائدہ ضرورہواہے۔ لیکن میں پارٹی بنیاد ہوسکتاہوں۔ پارٹی آواز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے خاموشی اختیار کرنی پڑی۔
(۔۔۔جاری ہے)