ادبی دنیانثر

اِدارہٴ ادبِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس

رپورتاژ: محمد یوسف عبدالرحیم بیدری

(دوسری قسط)

”نام کااثر ہوتاہے، شکتی کامطلب طاقت ہے، آپ کو قوت وطاقت پہنچانے میں شکتی بریڈ نے اپنارول اداکردیا لیکن اگر وہ ”بِریڈ“باقی رہتی تو اچھا تھا“میں نے اپناخیال ظاہر کیا۔کچھ خیال ایسے ہی ہوتے ہیں،ایسے ہی نیک نیتی کے ساتھ زبان پر آجاتے ہیں ۔ جی چاہتاہے کہ سامنے والے کاماضی بدستور چلتارہتا تو اچھاتھا۔ وسیم احمد صاحب نے تاسف کا اظہار کیا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ جوکچھ واقعات ہوئے ہوں گے اس کے پنوں کو کھولنا انھوں نے مناسب نہیں سمجھااور اونگھنے لگے۔ میں ”بیدری لال بس“ کے باہر دیکھ رہاتھا۔ گذشتہ 5سال کے دوران پونہ۔ حیدرآباد ہائی وے کوکافی کشادہ کردیاگیاتھا، اسکے لئے ہزارہا درخت کاٹے گئے تھے اور اب یہاں سے وہاں تک سیدھااور صاف راستہ تھاجس کو صراطِ مستقیم کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی کیونکہ یہاں کوئی گھنا سایہ داردرخت عنقا تھا۔اورمیں سوچ رہاتھا درختوں کو کاٹنے کے بجائے ان کاٹرانسفارمیشن اگر ہوتاتو کتنا اچھا ہوتا۔

”پھرگتہ دار اپنے عالیشان بنگلوں سے محروم رہ جاتا، اس دیش میں گتہ داروں کے ساتھ ایسا کرنا پاپ میں شمار ہوتا ہے۔ عوامی نمائندے اور گتہ دار مل کر اس ملک کوترقی کی شاہراہ پر ڈال رہے ہیں، کتنی ترقی ہورہی ہے یہ علیحدہ نکتہ ء بے جا ہے، لیکن کوئی بھی گتہ دار کو قطعانظر انداز نہیں کرسکتا، انھیں خدائی فرزند کہاجاسکتاہے، جس کاکوئی وجود کسی بھی جہاں میں نہیں ہے“ میرے اندرون سے آوازآئی۔ خاموشی کے دوران میرے ہمزاد کا بولنا ضروری ہوجاتاہے، کبھی کبھی بات چیت کے دوران بھی وہ رخنہ ڈالنا اپنافرض سمجھتاہے۔”ہم کہاں تک پہنچے؟“وسیم صاحب نے خمارآمیزآنکھوں سے مجھ سے پوچھا۔ میں نے انہیں پہلے تو بغور دیکھا۔ وہ مجھ ہی سے مخاطب تھے۔ پھر میں نے جواب دیا”ہم لنگم پلی سے پہلے والے شہر تک پہنچ چکے ہیں، جس کا نام میں ہمیشہ بھول جاتاہوں“

”اچھا…اچھا…پٹن چیرو تک آگئے ہیں“وسیم احمد صاحب نے پیشانی پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔ ہماری بس پٹن چیرو کے سامنے سے گزر نے لگی تھی۔ جہاں کافی ٹریفک تھی۔ لوگوں کے چہرے اور کپڑے ایک جیسے تھے۔ متوسط طبقے کاہجوم۔زندگی کے وقت سے اپنے حصہ کی کمائی کشید کرنے کی طرف رواں دواں،تاکہ اولادیں بہتر مستقبل دیکھ سکیں۔اس ہجوم کے والدین نے بھی ان کے بہتر مستقبل کے سپنے دیکھے تھے لیکن آج یہ ہجوم بھی سوچ رہا ہوگا یہ کہاں آگئے ہم؟کس ڈگر سے چلے تھے اور کون سی راہ پر چل پڑے ہیں۔ بس میں اونگھ اور نیندنے اپناراج قائم کررکھا تھا۔سبھی مسافر حیدرآبادجارہے تھے۔ کسی کو کہیں اترنا نہیں تھا۔اسلئے سب بے فکری سے سو رہے تھے یااونگھ رہے تھے۔ جس وقت بس لنگم پلی سے قریب ہونے لگی، سابقہ ٹول ناکے کے انتظامات کاڈھانچہ جوں کا توں دیکھ کر میں نے وسیم احمد صاحب سے دریافت کیا ”اب جبکہ روڈ ٹیکس وصول کرنا ختم کردیاگیاہے تو پھر یہ سارا ڈھانچہ ختم ہوجانا چاہیے نا؟جدھر دیکھو اسپیڈ بریکر لگے ہیں۔جب اس پر سے بسیں اور ٹووہیلر وغیرہ گزرتے ہیں تو اس سے انسانی جسم پر برے اثرات رونما ہوتے ہیں۔ انہیں صاف کرکے سڑک کو مسطح کیوں نہیں کردیاجاتا؟“

”یوسف صاحب! یہاں کہاں کیاہورہاہے، یہ کوئی پوچھنے والانہیں ہے۔ عوام کی تکالیف کو کم کرنااگر مقصد بن جائے تو ہندوستان پھرایک بار جنت نشان بن جائے“جس وقت بس لنگم پلی پہنچی۔ وسیم احمد صاحب نے اپنے نواسے سے کہاکہ فون لگاؤ اور کہو کہ تمہارا چچازاد بھائی تمہیں لینے آئے لیکن نواسے کاچچازادا بھی کالج میں تھا۔ وہ کہہ رہاتھاکہ وہ نہیں آسکے گا۔نواسے کو Olaمیں بٹھا کر گھر کاپتہ بتادیں، اولا گھر تک پہنچا دے گی۔ وسیم احمدصاحب مطمئن نہیں تھے، بڑھاپا بے اطمینانی ہی کانام ہوتاہے۔ اسی اثناء میں کسی محمود صاحب نے ان سے موبائل پر رابطہ کیا۔ وسیم احمدموبائل پر بات کرتے رہے۔اور کہاکہ میں ٹولی چوکی پہنچنے سے پہلے آپ سے رابطہ کروں گا۔ موبائل رکھتے ہوئے انھوں نے مجھ سے کہاکہ میرے ایک کرم فرما ہیں،جس مقام پر ادارہٴ ادب اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس منعقدہونے والی ہے اس کا پتہ جانتے ہیں،ہمیں وہاں تک وہ بآ سانی پہنچادیں گے“اندھے ہی نہیں ایدی(آلسی شخص) بھی آنکھیں اور آسانیاں ہی چاہتاہے۔ سو میں خوش ہوکر خاموش بیٹھ گیاکہ کوئی صاحب تو ہیں جو ہمیں ٹولی چوکی میں ادارہٴ ادب ِ اسلامی ہند کی جنوبی ہند کانفرنس کے پتہ پر بآسانی پہنچا دیں گے“

حیدرآباد میں میرے کسی سے تعلقات نہیں ہیں۔ ٹولی چوکی میں عالم طنزومزاح کے معتبر فنکار ڈاکٹرعابدمعز قیام پذیرہیں لیکن ان سے رابطہ کرنا نہیں چاہتاتھا۔ ٹولی چوکی ہی کے ایک شاعر جناب ابراھیم حنفی کو البتہ رات ہی میں واٹس ایپ پر اطلاع دے چکاتھاکہ جنوبی ہند کانفرنس میں میری شرکت ہے۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو ملاقات ہوسکتی ہے۔جس کا انھوں نے مثبت جواب واٹس ایپ پرہی دے دیاتھا۔ فون اس لئے نہیں کیاہوگاکہ نہ جانے یوسف رحیم نامی بندہ کس کام میں مشغول ہو۔ احتیاط ابراھیم حنفی کا وصفِ خاص ہے۔ جانے کتنی اشیاء اس احتیاط کی نذر ہوگئیں لیکن وہ احتیاط کے سچے معشوق نکلے۔ خسار ا چاہے جتنا ہو، کبھی احتیاط کادامن نہیں چھوڑا۔

بی ایچ ای ایل کے پاس سے بس نے اپناراستہ بدل کر میاں پوراور کوکٹ پلی جانے کے بجائے گچی باؤلی،اور مہدی پٹنم کے راستے کی طرف اپنارخ کرلیا۔ بی ایچ ای ایل سے ایک فرلانگ کی دوری پر واقع فٹ پاتھ پر کوئی شخص اخبار فروخت کررہاتھا۔ انگریزی اور تیلگو اخبارات ایک دیوار پرٹنگے ہوئے تھے جن میں اردو اخبار ”منصف“ بھی نظر آرہاتھا۔ فٹ پاتھ پر یا پان شاپ پر اردو اخبار کو دیکھ کر خوش ہونا میری لاشعوری عادت ہے۔ میری ان نگاہوں کاتعاقب وسیم احمد صاحب کی نگاہیں بھی کررہی تھیں۔ یا پھر بس کے باہر کچھ اور تلاش کرنے میں مصرو ف ہوں گی۔ آٹھ دس منٹ کے سفر کے بعددائیں جانب ایک پرانی عمارت نظر آئی جس پر انگریزی میں لکھا تھا۔ ”میں لاوارث ہوں، مجھے گو دلیاجائے“تاریخ اور تاریخی عمارتوں پر جو ستم اکیسویں صدی میں ہورہاہے وہ شاید ہی کسی اور دور میں ہواہوگا۔ اصلی تاریخ کو دیکھ کرمن پسند تاریخ گھڑنے کاکام ہندتواتاریخ دان جس خوبی سے کرتے ہیں، اس کا پتہ مستشرقین کو چلے تو وہ انھیں اپنا استاد مان لیں اور ان کے قلم ہی نہیں پاؤں پراپنا سررکھ دیں۔دوسری جانب تاریخی عمارتوں کویتیم بنانے اور اس کا ڈی این اے(تحریری طورپر) بدلنے میں ہم ہندوستانیوں کاثانی نہیں ہے الاماشاء اللہ

چھ مسافر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے پہلے اُترگئے۔ اب یہاں سے ہر شخص اپنی اپنی منزل کے قریب ہورہاتھا، اور اترنے کایہ سلسلہ آگے بھی چلنے والاتھا۔ اردو یونیورسٹی کی عظیم الشان عمارتوں کو اووربریج سے دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اردو زبان میں علم کی شمع تودراصل اہلیان حیدرآباد نے روشن کررکھی ہے جبکہ ہم بیدر والے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) کا سیٹلائٹ کیمپس بھی اپنے ضلع بیدر میں قائم نہیں کرسکے۔دروغ برگردن ِراوی اس کیمپس کے قیام کو لے کر اتنی زیادہ سازشیں چلنے کی اطلاع ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتاکون، کس خیمہ میں بٹا ہواہے؟مسلمان طلبہ کو اگرکے جی تا پی جی مفت اردو تعلیم حاصل کرنے کاموقع مل رہا ہے تو انھیں اس عمل سے روکنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ موت تو سبھی کو آنی ہے۔ اہل علم، اہل دانش، ماہرین تعلیم اور ماہرین تربیت،سرکاری ونیم سرکاری اساتذہ سبھی کو مرنا ہے اور اپنے اپنے اعمال کی جوابدہی اپنی ہی قبر میں کرنی ہے۔ کسی کو دوسرے کی قبر میں طلب نہیں کیاجائے گا۔جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے ان سے کیسا شکویٰ، لیکن جن کی مادری زبان اردو ہے ان کامولاناآزاد سیٹلائٹ کیمپس کے قیام میں رکاوٹیں ڈالناچہ معنی دارد؟
(………جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!