سماجیمضامین

کیا ہم نے اِسی کو زندگی سمجھ لیا ہے!

شاہانہ خانم، حیدرآباد

پھول کھلتے ہیں مرجھاجاتے ہیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں کرتے۔ اپنی مختصر سی زندگی میں حسین پھول مسکراتے ہیں اور پتی پتی ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ ہم انسان جواشراف المخلوقات ہیں ہم نے اپنی زندگی کو مشکل ترین بنادیا ہے خاص طور پر ہم مسلمان جو نام سے ہی مسلمان ہیں۔ ہم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہوجاتے ہیں نہ صرف پریشان ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کوبھی پریشان کردیتے ہیں۔ دوسروں کی خوشی ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔ دوسروں کی تعریف سن کر ہماراانداز بتادیتا ہے کہ ہمیں حسد محسوس ہورہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی کامیابی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ہم سیاست کودفتروں میں اور گھروں میں لے آئے ہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

خواتین نے تو اپنے گھروں کو اکھاڑہ بنارکھا ہے اگر گھر میں ایک عدد بہو ہی ہو تو گھرمیں ہروقت جنگ کا سماں بندھا رہتا ہے کبھی بہو کو سسرالیوں سے شکایت رہتی ہے توکبھی ساس اپنی بہو کا جینا حرام کردیتی ہے۔ غرض کہ ہم ان ہی فضول سی باتوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ہم نے اس کو زندگی سمجھ لیا ہے۔ کیا زندگی کو ایسا ہونا چاہیے؟ مردوں کا معاملہ بھی خواتین سے مختلف نہیں وہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ایسے طوفان برپا کردیتے ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہر معاملے میں ان کی رائے ہی درست ہو ہم سب کو وسیع النظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے خود پسندی ایک بہت بڑی خامی ہے ورنہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں روٹھ کر اس طرح دورچلی جائیں گی کہ ہم سوائے پچھائے کہ کچھ ہی حاصل نہ کرسکیں گے۔

ہماری سوچ کا یہ محور ہوچکا ہے کہ ہم جوچاہیں صرف وہی ہو۔ دوسروں کی خاصیت اور صلاحیت کے ہم کبھی معترف نہیں ہوتے۔ ہم ہمیشہ اپنے ہی مفاد کے بارے میں سوچتے ہیں ہم خودپسندی اور انانیت کا شکار ہیں۔ یہ زندگی جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اسے ہم ہنسی خوشی بھی گزار سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم یہ چاہیں کہ ہر کوئی صرف ہماری ہی عزت کرے اور ہم کسی دوسروں کی خوشی ناخوشی کی پرواہ نہ کریں توپھر ہمیں اس بات کا یقین کرلینا چاہیے کہ ہم سچی اور پائیدارمسرتوں کوکبھی نہ پاسکیں گے۔

اُمت مسلمہ بے انتہا مسائل کا شکار ہے۔یہ وقت ہے کہ ہم آپس کے اختلافات کوختم کرکے ایک قوم بنیں۔ اپنے مذہبی مالک کوبھلا کر اور ان میں الجھنے کے بجائے ایک ہوجائیں۔ ورنہ ہماری جھوٹی انااور حسد کی چنگاریاں خود ہمارے ہی وجود کوجلا کر راکھ کر دیں گی۔ ہم خواب غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ ہم معمولی معمولی باتوں کوآپس میں حل کرنے کی بجائے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کی نظروں میں مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔اگر ہم آپس میں پیارومحبت سے رہیں گے ایک دوسرے کے دکھ درد کودور کرنے کی کوشش کریں گے ہم متحدہونگے توپھر کسی دوسرے کی مجال نہیں ہوگی کہ ہمیں نقصان پہچانے کے بارے میں سوچے۔

ہم خود ہی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے اطراف آگ لگی ہوئی ہے اور ہم آپس میں ہی الجھے ہوئے ہیں ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ آگ کی لپٹیں ہمارے دامن کوچھونے کوبے قرار ہیں کا ش ہم جاگ جائیں، کاش ہم میں عاجزی اور انکساری جیسی خوبیاں پیدا ہوجائیں، کاش ہم میں مروت،محبت اور خلوص پیدا ہوجائے۔ مسلمان سادہ مزاج اور سادہ لباس ہوتے ہیں لیکن ہم سادگی سے کوسوں دور ہیں ہم اپنی حیثیت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کرتے ہیں۔ اپنی نام نہاد ضروریات کوپورا کرنے کی خاطر قرض لیتے ہیں۔سودی معاملات کوبھی ہم برانہیں سمجھتے۔

ہم ظلم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور بے حسی کی تصویر بن جاتے ہیں ہم کبھی بھی ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ ہاں!مگر جب کوئی ہم پر کسی بھی قسم کا ظلم کرے تو پھر ہم چیخ اٹھتے ہیں۔ مسلمان بہن بھائیوں پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر خاموشی اختیارکرلیتے ہیں۔ ہم بے انتہا خود غرض ہوچکے ہیں ایسے میں ہم یہ کیسے سوچ بھی سکتے ہیں کہ ہم آخرت میں سرخرو ہوں گے ہمارے ہر طرف ظلم وبربریت کا بازار گرم ہے اور ہمارے لب حیران کن حد تک خاموش ہیں ایسا کیوں؟

ایسا اس لیے ہے کہ ہم میں خلوص ومحبت ختم ہوچکا ہے ہم صرف اپنی نہ ختم ہونے والی خواہشات کے غلام ہیں۔ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی ہمیں بزدل قوم کے نام سے یاد کیا جائے گا ہم منافق لوگ ہیں ہماری زبانوں پر کچھ ہے،ہمارے چہرے پر کوئی اور ہی تحریر لکھی ہوئی ہے اور ہماری آنکھیں کوئی اور ہی کہانی سنارہی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات کوفراموش کرچکے ہیں اسی لیے آج جوبھی ہم سہہ رہے ہیں یہ اسی نافرمانی کی سزا ہے۔ ہم سورہے ہیں، ہمیں جاگنا ہوگا۔ اپنے اعمال کودرست کرنا ہوگا ہمیں ایک مثالی اور پرامن قوم بننا ہوگا۔

کشمیر کے حالات آج کسی سے عیاں نہیں ہے مگر سب کے لب خاموش ہیں۔ وہاں کا حال سن کر دل دہل جاتا ہے۔ اور آنکھوں سے آنسو کے بجائے خون رواں ہوجاتا ہے۔ وہاں کا ماحول ظلیمانہ ہوگیا ہے۔ اور ظلم زیادتی بڑھتی جارہی ہے۔ کیا ہم مسلم اب بھی خاموش رہے،تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا بھی یہی حشرہونے والا……

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!