سماجیمضامین

میاں بیوی اور آج کا دور

شاہانہ خانم، حیدرآباد

میاں بیوی کا رشتہ دنیا میں سب سے پہلا رشتہ ہے۔ حضرت آدم اور حضرت حوا سے اس رشتے کی شروعات ہوئی۔ اس میں اللہ کی رحمت اور برکات پوشیدہ ہیں۔ بیوی جو اپنا میکہ ایک دن میں چھوڑدیتی ہے اور اس کے لئے اپنے کا گھر کی جنت سے کم نہیں ہوتا ہے۔ یہ احساس اس کو شادی کی رات سے ہی پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن شوہر جو اپنے گھر اپنے ضرورت کے لئے جب اسے لیکر آتا ہے تو ہر لمحہ اس کا امتحان ہوتا رہتا ہے۔شوہر کو چاہئے بیوی کی تعریف سے زیادہ اس کا احساس کرے اور ایک بیوی کے لئے یہ احساس کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا کہ کوئی میری فکر کرنے والا ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی اہلیہ نفسیاتی بیمار نہ ہوں اور اپکی بیوی بڑھاپے کی عمر تک پہنچنے کے باوجود صحت منداور تندرست رہے، آپ کے بچے خوبصورت، ہونہار، اعلیٰ صلاحیتوں اور قابلیتوں کے مالک ہوں تو اپنی طرف سے پوری کوشش کیجئے کہ آپ کی ذات سے آپ کی بیوی کوغم نہ پہنچے اور آپ پر اس کو اتنا اعتماد ہوکہ اپنی ہرالجھن وہ آپ سے بلا تکلف کہہ سکے، اندرہی اندر نہ گھٹے اپنے بیوی بچوں کی تمام جائزخواہشات (جن کی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ نے اجازت دی)کو پورا کرکے ان کے اندرامید، بشاشت، بلند ہمتی، حوصلہ محبت وغیرہ کے جذبات پیدا کریں، اپنی استطاعت کے موافق کبھی بھی بیوی کے اعتماد کو مت ٹھکرائیں، اس کی باتوں کو دھیان سے سنیں اور اس کو خوش رکھنے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تو ان شاء اللہ وہ ہر قسم کی جسمانی اور نفسیاتی بیماریوں سے محفوظ رہے گی، اس کی تندرستی میں آپ کی تندرستی پہناں ہے،اس کی خوشیوں میں آپ کی خوشی مضر ہے۔

یہ سچ ہے کہ عورت میں درد سہنے کی سکت ہوتی ہے مگر!اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ درد دئیے جانے کی مستحق ہے! بیوی موم کی طرح نرم فطرت والی ہوتی ہے جس سانچے میں ڈھالنا چاہو گے ڈھل جائے گی، بشرطیکہ شوہر نرمی کا برتاؤ کرے۔بیوی اپنے شوہر کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ تم اس کی کہو وہ خوبصورت ہے‘ وہ ہر روز نکھرتی جائے گی اس کو سراہو گے تواس کا اعتماد بڑھے گا‘لیکن ہر وقت اس کے اندر نقص نکالو گے تو اس کو کھوکھلا کردو گے، وہ ٹیڑھی پسلی سے نکلی ہے‘ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اسے توڑدو گے۔عورت کی شوخیاں،شرارتیں،من مانیاں اور غیر ذمہ داریاں ماں باپ کے گھر ہی ہوتی ہیں، سسرال میں عورت کی تربیت اور صبر کا امتحان ہوتا ہے۔

گھر کے اندر تشدد کی وجہ سے بچوں اور والدین کے درمیان ذہنی ٹکراؤ پیدا ہونے لگتا ہے۔ باپ کی طرف سے ماں پر تشدد ہوتا دیکھ کر بچہ اپنے ذہن میں باپ کے خلاف محاذ آرائی کرنے لگتا ہے۔ اس کارویہ باغیانہ اور گستاخانہ ہونے لگتا ہے۔ وہ خود بھی جذباتی طور پر الجھ کر رہ جاتا ہے۔ والدین کی آپس میں علیحدگی کی صورت میں بچوں میں پیدا ہونے والی افسردگی اور یاسیت بالغ ہونے تک بھی جھلکتی رہتی ہے۔ بعض بچوں میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے‘ گفتگو متاثرہ ہونے لگتی ہے‘ قوت اظہار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔

بچے حالات کے ساتھ موافقت پیدا نہیں کرسکتے‘ ان کے معاشرتی تعلقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ہم ایسے سماج میں رہتے ہیں جہاں تو جہیز ایک لعنت ہے شادی کو آسان بنایا جائیں۔ اور بیٹی بچاؤ اور بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ تو لگاتے ہیں۔ پر یہ سماجی الجھ جو ہوتی ہیں ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور اس کو ختم کرنے میں روکاٹیں پیدا کرتی ہیں۔ جیسے خاندان میں بدنامی ہوگی،سماجی میں عزت نہیں رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حالات میں ایک عورت کیا کریں جس پر اس کا شوہر ظلم کرتا ہے اور وہ کس سے اپنی فریاد کریں ……

آخر معاملہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔ طلاق سے یاد آیا ہماری حکومت اس کا مذاق بنادیا ہے۔ اس نازک مسئلے کا حل قرآن میں بہترین انداز میں موجود ہے۔ طلاق کو لے کر مودی سرکار نے ایک بل پاس کیا جو ایک طرح سے عورت پر ظلم زیادتی ہے۔ جس عورت کا شوہر اگر جیل میں رہے وہ اپنے اخراجات کس سے لے گی اس کے سسرال والے اپنے بیٹے کو جیل میں ڈالنے والی کو کیوں کر گھر میں رہنے دینگے جب وہ اپنے میکے میں جائے گی تو میکے والے بھی اس کو گھر میں رہنے کی اجازت تو دے لیکن اس کے اخراجات اورروزمرہ کے خرچ پر تانے دیتے رہتے ہیں اور وہ وہاں کا ماحول بھی جھگڑوں میں بدل جائے گا۔

آخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا، متعدد بار حکومتی کوششوں کی ناکامی کے بعد اس مرتبہ پہلے لوک سبھا اور پھر راجیہ سبھا میں تین طلاق بل منظور کرلیا گیا: جس کے بعد سکولر اور غیر سیکولر پارٹیوں کی ساری حقیقت کھل کر سامنے آگئی اور اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ یعنی عالمِ کفر سارا کا سارا متحدہ متفق ہے، اگر منتشر ہیں تو ہم مسلمان ہی منتشرہیں۔ یہ بل مسلمان عورتوں پر ظلم کے مترادف ہے۔گھروں کو برباد کرنے والا ہے، بچوں کے روشن مستقبل کوتاریک کرنے والا ہے۔

موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ دشمنانِ اسلام جو اسلامی تعلیمات پر انگلی اٹھارہے ہیں اس کی وجہ شریعت اسلامیہ میں طلاق کی اجازت نہیں بلکہ بعض افراد کے جانب سے اس کا غلط استعمال ہیں اب ہم ان حالات میں اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اللہ کے احکام اور قرآن وسنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کے طریقے اپنائیں۔ تاکہ ہم اپنے آنے والی نسلوں کے سامنے شرمنسار ہونے سے بچ جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!