ہمناآباد: پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی قانونی بیداری مہم تقریب، ہائی کورٹ وکیل محمد انس کا خطاب
ہمناآباد: یکم اکٹوبر- راجند سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہیکہ ہندوستان میں مسلمان دلتوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں اور ساٹھ فیصد مسلمان جیلوں میں بند ہیں تو کیا تمام مسلمان مجرم ہیں،ایسا نہیں ہے ایک سازش کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے ایسا کیوں ہو رہا مسلمانوں کے ساتھ اس بات کی اہم وجہہ یہ ہیکہ مسلمانوں کوقانونی معلومات نہیں ہیں۔ان خیالات کا اظہار ہمناآباد میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا کی جانب سے سوپر فنکشن ہال میں منعقد کردہ قانونی بیداری مہم سے خطاب کرتے ہوئے بنگلور ہائی کورٹ کے وکیل محمد انس نے کہی۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کے ہندوستان کا ایک دستور ہے جسکو 26جنوری 1950کو عمل میں لایا گیا اس دستور میں کئی دفعات موجود ہیں جن میں ایک بنیادی حقوق ہے،آرٹیکل14میں مساوات کی بات کرتا ہے قانون کی نظر میں سب برا بر ہیں،آرٹیکل 90آزادی سے متعلق ہے اور آزادی چھے قسم کی ہے پہلی بولنے کی آزادی،دوسری بغیر کسی ہتھیار کے کہیں پر بھی جمع ہونے کی،تیسری اپنی پسند کی کوئی بھی کمیٹی بنانے کی،چوتھی تمام ہندوستان میں کہیں پر بھی آنے اور جانے کی،پانچویں ملک کے کسی بھی ریاست میں بسنے کی،چھٹی اپنی پسند کی کوئی بھی قانونی طور پر جائز ملازمت کرنے کی،اور آرٹیکل 21ہمیں جینے کا حق فراہم کرتا ہے انسان کو زندگی بسرکرنے کے لئیے روٹی کپڑا اور مکان کی ضرورت ہوتی اسکو فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے۔
آرٹیکل 25کے تحت اس ملک میں ہم کسی بھی مذہب کی پیروی کر سکتے ہیں کوئی ہم پر زبردستی نہیں کر سکتا ہے۔آرٹیکل 29کے تحت ہم اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئیے مسجد مدرسہ کی تعمیر کرسکتے یہ ہمارا حق ہے اور اس حق سے ہم کو کوئی محروم نہیں کر سکتا ہے اگر کوئی ایسا کر تا ہے تو اسکی شکایت ایک خط کے ذریعہ سپریم کو رٹ اور اپنی ریاست کی ہائی کورٹ کو کرسکتے ہیں ہندوستان میں عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے اس پر کوئی سیاسی دباؤ نہیں ہو تا ہے۔آرٹیکل 51Aکے تحت یہ بتلایا گیا ہیکہ ایک ہندوستا نی شہری کو اپنے ملک کے لئیے کیا کرنا چاہئیے ہندوستان کے ہر شہری کو اپنے ملک کی عزت کرنا،اپنے قومی ترنگے کی عزت کرنا،دستور کی عزت کرنا،عورتوں کی عزت کرنا،اس ملک کے قدرتی وسائل کی حفاظت کرنا،آثار قدیمہ کی حفاظت کرنا،آثار قدیمہ کی عمارتوں کو ہرگز نقصان نہ پہنچائیں اسکو دیکھنے کے لئیے بیرونی ممالک سے سیاح تشریف لاتے ہیں،ٹیکس کی ادائیگی وقت پر کریں،اور جب دشمن ممالک کی جانب سے کوئی خطرہ درپیش ہو تو ملک کی حفاظت کے لئیے سرحدوں پر بھی جانا پڑے تو اسکے لئیے تیا رہیں۔
قانونی معلومات کے لئیے پلے اسٹور میں آئی،پی،سی کا ایپ موجود ہے اسکو اپنے موبائل فون میں ڈاؤن لوڈ کرلیں مزید معلومات حاصل ہونگی۔ انہوں نے سی،آر،پی،سی قانون کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کے اس قانون کے تحت لڑائی جھگڑے کے معالات درج کیے جاتے ہیں لڑائی جھگڑے کی شکایت کوئی بھی کر سکتا ہے اپنے قریبی پولیس اسٹیشن میں،شکایت کندہ کو چاہئیے کے وہ اپنی تمام تقصیلات فراہم کریں،اگر شکایت کندہ اپنی شکایت میں کوئی بات بتلانا بھول گیا تو دوسرے دن بھی کہہ سکتا ہے،پولیس کو اختیا ر ہیکہ وہ کسی کو بھی بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار کرسکتی ہے صرف عورت کو گرفتار کرنے کے لیے اعلی حکام سے اجازت لینی لازمی ہے اور عورت کو گرفتار کرنے کے لئیے صبح چھے سے شام چھے بجئے تک کا وقت مقرر ہے۔کسی شخص کو گرفتا رکرنے کے بعد اسکے رشتہ داروں کو اطلاع دینا،اسکی طبی جانچ کروانا،بھوکا ہے تو کھانہ کھلانہ اور چوبیس گھنٹوں کے اندر جج کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔
مگر پولیس ایسا نہیں کرتی ہے،جب کسی شخص کو پولیس گرفتار کر کے جج کے سامنے پیش کرتی ہے تو جج کے سامنے سچ بولیں کے آپکو پولیس نے کب گرفتار کیا ہے اگر پولیس کے بیان میں اور کسی ملزم کے بیان میں فرق موجود رہا تو اسکی جانچ دوسرے پولیس والوں سے کروائی جاتی ہے اور جن پولیس والوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہے انکو خدمات سے معطل کیا جاتا ہے۔این،آر،سی کے بارے میں انہوں نے کہا کے موجودہ وقت میں مسلمانوں کے درمیان این،آر،سی کا خوف دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے قطعی طو رپر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
26جنوری 1950سے جو اس ملک میں بسا ہوا ہے وہ ہندوستان کا شہری کہلاتا ہے این،آر،سی،کیوں آیا اسکی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کے جب انگریز اس ملک پر قابض تھے تو انہوں نے آسام میں چائے کی کاشت کی اور اسکے لیے بنگلہ دیش سے مزدور کام کرنے کے لئیے آتے تھے آزادی کے بعد آسام کے لوگوں کو یہ احساس ہوا ہے یہاں پر بنگلہ دیش کے لوگوں زیادہ ہیں انکو باہر کرنے کے لئیے تحریک شروع کی گئی 1966سے،اسی دوران مرکز میں کئی حکومتیں تبدیل ہوئی جنہوں نے این،آر،سی کو شروع کیا 2004میں اسکو ڈیجیٹل کیا گیا اور اسکا پہلا ڈرافٹ2016میں منظر عام آیا جس میں 40لاکھ لوگوں کے نام نہیں تھے 2019میں اسکا دوسر ڈرافٹ آیا جس میں 19 لاکھ لوگوں کے نام شامل نہیں ہیں انکو فارنر ٹربیونل سے رجوع ہونا ہو گا اسکے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کو رٹ جانا ہوگا۔
صرف آسام میں این،آر،سی،کرنے کے لئیے کئی سال بیت گئے 125کروڑ لوگوں کے لئیے کرنا نہ ممکن بات ہے،حکومت چاہی تو تمام ہندوستان میں اسکو لاگو کر سکتی ہے مگر اسکے لئیے وجوہات بتلانے ہونگیں۔این،پی،آر سے بھی گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس میں وہ سبھی لوگ شامل ہونگیں جن کے پاس آدھا ر کارڈ،راشن کارڈ،ووٹرآئی،ڈی موجود ہے،اس مرتبہ کا این،پی،آر بائیومیٹرک کے ذریعہ ہو گا،آدھار کارڈ پر جو موبائل نمبر دیا گیا ہے اسکو سنبھال کر رکھیں اسی کی ذریعہ این،پی،آر،کی کاروائی انجام دی جائیگی،جب بھی این،پی،آر والے گھر پر آئیں تو انکو اپنی تمام تفصیلات سے آگاہ کریں،این،پی،آر جب بھی کیا جائے گا تو اسکا ایک ثبوت گھروالوں کو دینے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرنے کی بات کہی۔
۔اس تقریب سے محمد شاہد نصیر اور محمد محسین نے بھی خطاب کیا،اس تقریب کا آغاز حافظ سید عرفان اُللہ کی قرآت کلام پاک سے ہوا،سید عمران نے نظامت کے فرائض بخوبی انجام دیے۔محمد اعجاز ضلعی صدر پاپولر فرنٹ آف انڈیاء گلبرگہ،محمد آصف ٹمکور،محمد اظہر ایڈوکیٹ دیگر خصوصی مہمان کے طور پر تقریب میں شرکت فرمائی۔اس قانونی بیداری مہم کی تقریب کو کامیاب بنانے میں محمد قاضی مجیب، سید ابراہیم قادری، محمد آصف اقبال، محمد توحید، محمد ولی الدین، سید الطاف، محمد پرویز احمد، محمد مقصود، محمد مبشر، محمد عبدالحمید، محمد مزمل کے علاوہ دیگر نوجوانوں نے اپنا تعاون پیش کیا۔