آمدنی بمقابلہ خرچ
مرزا انور بیگ
لوگ شکایت کرتے ہیں سر ! کماتے ہیں مگر گھر خرچ پورا نہیں پڑتا۔ مندی بہت ہے۔
غالباً حضرت عمر رض کا قول ہے کہ کفایت شعاری معاشی مسئلے کا آدھا حل ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے کہ وہ مصرف کو پسند نہیں کرتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔
اس تناظر میں اگر اس کنزیومرزم کے دور پر نگاہ ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح مارکیٹ کے اشتہارات انسانوں کو فضول خرچیوں کی دعوت دیتے ہیں۔ اور چونی کی چیز کے چار سو 400 وصول کیے جاتے ہیں۔ اول تو اشتہارات پر اتنا زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اصل لاگت سے کئی گنا زیادہ صرف اسی مد میں خرچ ہوجاتا ہے۔ باقی سرمایہ دار، کارخانہ دار اور دوکانداروں کا منافع اس پر جی ایس ٹی اور پھر دیگر ٹیکس جو سارے کے سارے صارف سے وصول کیے جاتے ہیں اس طرح چاروناچار ہر فرد اس جال میں اس طرح جکڑ لیا گیا ہے کہ وہ فضول خرچ کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔ پھر مارکیٹ کی چکاچوند اسے لالچ دلانے کے لئے الگ موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جذبہ مسابقت اور اپنی اونچی ساکھ اور دھاک اس سلسلے میں لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خود کو نمایاں کرنے میں لگے ہیں اس اشتہار کی طرح کہ تیری ساڑی میری ساڑی سے زیادہ سفید کیوں ؟
اس طرح بہت سی ایسی چیزیں ہم خریدنے پر مجبور ہیں جن کی ہمیں قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بھی مارکیٹنگ کا کمال ہے کہ ان چیزوں کو ضرورت زندگی بنا کر پیش کرتے ہیں کہ لوگ حقیقت میں یہ محسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی میں مشکل پیش آۓ گی۔
چونکہ پورے بازار پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے اس لئے جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں وہ ان ہی کے حق میں کیے جاتے ہیں۔
علامہ اقبال نے ساقی نامہ غالباً اس دور میں لکھی ہے جب وہ یورپ کی تہذیب کا قریب سے مشاہدہ کرچکے تھے اور روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہوچکا تھا سرخ رات چھا چکی تھی جس نے سرمایہ دارانہ نظام کو زمیں بوس کردیا تھا۔
کہ
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
ہوسکتا ہے علامہ اقبال نے اس شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ نہ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت زمیں بوس ہوا تھا جب روس میں شاہان زار کو تہہ تیغ کرکے سرخ پرچم لہراۓ تھے اور نہ آج زمیں بوس ہے بلکہ اس وقت صرف اپنا چولا بدلا تھا اور ایک بڑے سرمایہ دار کو جنم دیا تھا جو اس نظام سے زیادہ انسانیت کے لئے بدتر ثابت ہوا تھا جہاں کم سے کم سود پر تو قرض مل ہی جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی انقلاب کسی منفی ردعمل کے طور پر برپا ہوتا ہے تو اس میں وہ تمام خرابیاں موجود ہوتی ہیں جس کے خلاف وہ انقلاب آیا ہے۔ اس میں اور سابق نظام میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا الا یہ کہ کچھ جزوی تبدیلی کا حالات کے وقتی تقاضوں کے تحت کوئی اصلاحی عمل ورنہ اس کی ترکیب میں وہی ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں۔
نہ اشتراکیت معاشیاتِ کا صحیح حل پیش کرپائی کیوں کہ اس کے بطن میں سرمایہ داری موجود تھی نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام اس قابل ہے کہ وہ فلاح انسانیت کے لئے کوئی معتدل نظام معیشت پیش کرسکے۔ جس طرح سرمایہ دارانہ نظام میں چند افراد کے ہاتھوں میں زمینی وسائل ہوتے ہیں اسی طرح اشتراکی نظام میں بھی بالآخر یہی بات سامنے آئی کہ وسائل پر چند لوگوں کا ہی قبضہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کم از کم لوگوں کی بولنے کی آزادی سلب نہیں کی گئی تھی مگر اشتراکیت نے اس آذادی پر بھی قبضہ کر رکھا تھا۔ بہر حال سرمایہ داری کی اس بدترین شکل یعنی اشتراکیت کو تو مٹنا ہی تھا سو جہاں سے آئی تھی وہیں دفن ہوگئی البتہ کچھ لوگ اس کی تربت کو اب بھی پوج رہے ہیں اور حکومتوں سے مراعات و وظائف حاصل کرتے رہتے ہیں۔
آج ہمارے پاس مال آجاتا ہے تو پہلی چیز کہ جہاں خرچ کرنے کی اصلی ضرورت ہے وہاں کے علاوہ ایسی بہت سی مدوں میں ہمارا مال خرچ ہوجاتا ہے جس کی قدرے ضرورت نہ تھی۔ پھر جو کچھ بھی خرچ کیا وہ صرف اپنی ذات تک۔ اپنے عیش و آرائش پر، فیشن پر۔ جو مال تھا وہ ہماری جیبوں سے نکل کر سرمایہ داروں کی تجوریوں میں گیا۔ ہمارے اطراف میں ضرورت مند، مفلس، مسکین، مقروض موجود ہیں مگر ہمارے اپنے اصراف اتنے ہیں کہ ان کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ معاشرہ میں اسی وجہ سے غربت اضافہ ہوا اور جب ہر طرف معاشی ہاہا کار مچا تو فضول خرچی کی وجہ سے نہ ہمارے پاس آج کچھ بچا ہے نہ ہماری خودغرضی کی وجہ سے معاشرے میں کوئی اس قابل ہے جو آج ہمارے کام آسکے۔
بہر حال بد اور بدترین نظریوں کی بدولت ہی اکثر معاشی معاملات بگڑ جاتے ہیں اور مارکیٹ مندی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ صارفین کے پاس خریداری کے لئے پیسے نہیں ہوتے اور وہ تمام آرائشی اشیاء وافر مقدار میں بازاروں میں خریداروں کو ترستی رہتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ پہلے تو لوگوں کو لالچ دے دے کر اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ وہ انھیں خریدیں۔ پھر انھیں یہ بارآور کرایا گیا کہ اس کے بغیر زندگی نہیں چل سکتی۔ پھر انھیں قرض اور قسط کی سہولت فراہم کی گئی۔ اب مندی ہے۔ آمدنی نہیں ہورہی ہے مگر قرض کی قسطیں تو ادا کرنا ہی ہے۔ کمائی سے کچھ بچت نہیں ہورہی ہے بلکہ جو کما رہے ہیں وہ بھی ناکافی ہورہا ہے۔
اسلام نے ان مسائل کے حل کے لئے پہلے ہی وہ تمام امکانات پیش کردیے ہیں جن سے ایک تو اس طرح کے حالات ہی پیش نہ آئیں اور اگر عالمی تناظر میں ایسا کچھ ہو جائے تو افراد اس کی زد میں نہ آئیں۔
اس سلسلے میں واضح طور پر اسلام نے یہ اعلان کردیا کہ نیکی کو اگر پہچنا ہے تو جو کچھ تمہارے پاس تمہارا دل پسند مال ہے اس میں سے خرچ کرو۔
پھر یہ کہا گیا کہ جو کچھ تمہاری ضرورت سے زائد ہے وہ سب خرچ کرو۔
پھر نہ خرچ کرنے والوں کو وعید سنائی گئی کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو غیبت کرتے اور طعنہ دیتے ہیں۔ جو مال جمع کرتے ہیں اور گن گن کر رکھتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مال ہمیشہ ان کے پاس رہے گا۔ (سورہ ھمزہ)
پھر صدقہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔
پھر ان سب کو ایک لڑی میں زکوٰۃ کے نظام میں پرو کر کم سے کم کی حدود مقرر کردی گئی اس کے بعد ہر وہ صاحب حیثیت اپنا مال بچا کر رکھ بھی سکتا ہے جو اس کی ضرورت سے زیادہ ہے اور جس کی اس نے زکوٰۃ نکال دی ہے۔
پھر کن کاموں میں خرچ کرنا ہے اور کن کاموں میں خرچ کرنا گناہ ہے۔ کس ضرورت کے وقت خرچ کرنا فرض ہے اور کب نفل تمام کا احاطہ کردیا گیا۔ منافع خوری سے روکا گیا۔ جعل سازی سے منع کیا گیا، ناپ تول میں کمی بیشی کو خرابی ء عمل اور نقصان و گناہ قرار دیا گیا اس طرح نری معاشی تعلیم نہ دے کر اس میں اخلاقی اقدار کی تعلیم ساتھ ساتھ دی گئی اس طرح رکے ہوۓ سرماۓ کو گردش میں لایا گیا اور ضرورت سے زیادہ سرماۓ کو روک کر ضائع ہونے سے بچایا بھی گیا۔ مثلاً اگر تالاب میں پانی رکا رہے تو سڑاند پیدا ہوگی اور کھیتی بھی سوکھے گی۔ مگر ضرورت سے زیادہ بہا دیا گیا تو کھیتی برباد بھی ہوجائے گی۔
اس نظام کو سمجھنے کے لئے بہترین واقعہ سورہ یوسف میں موجود ہے کہ کس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط کے ایام کے لئے تیاری کی تھی۔ یعنی اتنا ہی اناج بالیوں سے نکالا جائے جتنی ضرورت ہے باقی بالیوں میں ہی رہنے دیا جائے۔