ادبی دنیانثر

وقت

(مختر افسانہ)

از: ابوفہد

ایک لڑکی تھی۔ ناز و ادا سے بھری ہوئی اور سرے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوۓ۔ جب وقت اس پر مہربان تھا تو ایک بار اس نے بس کو ہاتھ سے اشارہ کیا اور بس رک گئی، دوسری بار اس نے پھر اشارہ کیا مگربس اس بارنہیں رکی تیسری بار اسے خوف لاحق ہوا کہ شاید بس اس باربھی نہیں رکے۔ وہ اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور بس ایک مختصر چرچراہٹ کے ساتھ رک گئی۔ پھر تو اسے جیسے یقین سا ہو گیا کہ کسی بھی متحرک شے کو اس طرح روکا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ بہتے ہوئے پانی کو بھی اور گھومتی ہوئی زمین کوبھی۔

پھر یہ ہوا کہ اس کی شادی ہوگئی، اس نے اشارہ کیا اور وہ رک گئے ۔ اس نے پھر اشارہ کیا اور وہ پھر رک گئے ۔ پھر تو یہ عام بات یہ ہوگی کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی اشارہ کرتی وہ بس کی طرح ایک دم رک جاتے۔ بھی مختصرسی ہچکچاہٹ کے ساتھ اور بھی کسی طرح کی ہچکچاہٹ کے بغیر بھی۔

ایک بار وہ جلدی میں تھے اس نے اشارہ کیا مکروہ نہیں رکے اور باہرنکل گئے۔ کئی بار وہ پر جلدی میں تھے، اسے خوف محسوس ہوا، وہ مورنی کی طرح باہیں پھیلا کر ان کے سامنے جا کھڑی ہوئی ، اور وہ دم روک کر کھڑے
ہو گئے ۔ کہ چاہے ہے پھرکسی کو مقابل میں آرزو۔
ایک بارز مین لرزنے گی ، اس نے زمین پر زور سے پیر پٹھا اور زمین قم گیا ۔ شاید یہ اتفاق تھا۔ مگر اسنے اسے اتفاق نہ جانا۔ وقت گزرتا رہا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کا یقین مزید پختہ ہوتا چلا گیا۔ جب وہ یہی سوچتی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کوروک سکتی ہے تو اپنے اندرون میں بے پناہ توانائیاں محسوس کرتی تھی۔

ایک بار اس نے بھی بھر ریت اٹھائی اور اس پر متصلا ہٹ طاری ہوگئی کہ آخر وہ اتنی کمزور کب سےہوگئی کہ ریت کے ان حقیر ذرات کو اپنی مٹھی میں قیدنہیں کرسکتی۔ اس کی سہیلیوں نے کہا کہ وقت اور ریت کو قابو میں نہیں کیا جاسکتا۔ مگر اسے یقین نہیں آیا۔ اس نے سوچا کہ آخر اس کا کوئی نہ کوئی تو طریقہ یا کوئی نہ کوئی تو فارمولہ تو ضرور ہو گا جس کے ذریہ وقت اور ریت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔۔۔

ابھی وہ فارمولے کی تلاش ہی میں تھی کہ اس کی مٹھی سے بہت سارا وقت اور ریت پھسل گئی۔ اور وقت نے اسے ایک بار پھر اسی مقام پر لا کھڑا کیا۔ وہ ایک بار پھر اس کے سامنے کھڑی تھی، اسے خوف محسوس ہوا کہ شاید بس نہر کے، اس نے اپنے اعصاب میں تناؤ پیدا کیا اور روڈ پربس کے سامنے بازو پھیلا کرکھڑی ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ بس کے بر یک کی چرچراہٹ کی آوازسنتی، تیز رفتار بس اس کی بوڑھی ہڈیوں کا سرمہ بناتی ہوئی گزرگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!