حقِ تنقید تمہیں ہے مگر۔۔۔
حق تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کیساتھ.
جائزہ لیتے رہو اپنے بھی گریبانوں کا
ذوالقرنین احمد
مولانا محمود مدنی کے دو بیانات کو لیکر دو چار روز سے ملت کے فکر مند اور باشعور افراد میں جو بحث جاری ہے۔ وہ ایک تو قابل تعریف بھی ہے کہ وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ آپ ملک کے حالات سے واقف ہے اور آپ کی حالات پر کڑی نظر ہے۔ اور ہونی بھی چاہیے۔
لیکن یہاں ایک بات زیر غور ہونی چاہیے جس طرح مولانا کے ایک بیان سے پورے ملک کے تعلیم یافتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں اور میڈیا میں بھونچال آگیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ اپنی شخصیت کو اس بلندی پر پہنچانا کہ ملک کی عوام جس کے ایک بیان سے متاثر ہوجائے بڑے فخر کی بات ہے کہ ہمارے درمیان ایسی شخصیات موجود ہے جو عوام کے ذہنوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ انکے بیان سے اختلافات رکھے جا سکتے ہیں۔ اس میں ہر کسی کو حق ہے لیکن اختلاف ایسے ہونا چاہیے جس میں کسی کے گریبان کو اسطرح چاک کرنا مقصد نہ ہو کہ وہ کہیں کا نا رہے ، بلکہ اپنی غلطی کا احساس دلادینا کافی ہے۔
ایک بات یہ بھی کہ جب ایسے حالات میں جب ملک کی فضا سازگار نہ ہو یہاں کے حالات ٹھیک نہ ہو تو ایسے میں لبوں کو جنبش دینا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اور ایک بڑا بوجھ ہوتا ہے۔ بڑی ذمہ داری سے زبان سے حرف ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ہر ایک انسان کا ذہن ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے۔ ایک انسان کی رائے پر انکے اعلان پر ہزاروں لوگ اگر بولنا شروع کردیں تو سبھی کو تو خوش نہیں کر سکتے ہے۔ میرا یہاں اس بات کہنے کا مقصد نا کسی کی حمایت کرنا ہے نا مخالفت کرنا ہے۔
بلکہ یہ کہنا چاھتا ہوں کہ اپنی شخصیت پر نظر ڈالیں کہ ہم اس نازک موقع پر کیا کر رہے ہیں۔ ہم اپنے اندر اور اپنی نئی نسل میں وہ قابلیت پیدا کریں کہ وہ اپنی شخصیت اپنے کردار و عمل سے عوام کو متاثر کر سکے۔ میڈیا میں چرچے میں رہنا بھی کوئی منہ کی بات نہیں ہے۔
اگر آپ حقیقت میں کسی کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ اور اس کی بات سے آپ کو اختلاف ہے تو آپ اسکی تحقیقات کریں سچ جاننے کی کوشش کریں اور پھر آپ اپنے مسلے کو لے کر اپنے قائد کے ساتھ ملاقات کریں اپنی بات کو رکھیں پھر اسکا حل تلاش کریں ۔ ذرا ذرا بات پر مخالفت میں اتر انا بلکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔