سماجیسیاسیمضامین

کیا تم جوان ہو! نوجوانو۔۔۔ کیا ہے تمہارا سیاسی وسماجی کردار!

شاہانہ خانم

نوجوان کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔جنہیں معماران قوم کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، نوجوانوں کو ہی آگے چل کر ملک وقوم کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہےاس لیے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت اور کردار سازی سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتی ہے۔ تاکہ مستقبل میں وہ ملک وقوم کی بہترانداز میں خدمت اور رہنمائی کرسکیں۔

باکردار اور بہترتعلیم وتربیت سے مزین نوجوان ہی قوموں کی ترقی کا زینہ ثابت ہوتے ہیں۔باکردار نوجوان ہی باکردار اقوام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ باہمت باشعور،متحرک،پرجوش نصیب ہوتے ہیں جن کے نوجوان فولادی ہمت اور بلند عزم واستقلال سے معاشرے کے قیام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔نوجوانوں میں احساس ذمہ داری ہی معاشرے کی ترقی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔

کامیابی ان اقوام کا مقدر ہوتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے گھبرانے کے بجائے دلیری سے مقابلہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں،کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔خوش حالی ان اقوام کے گلے لگ جاتی ہے جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں۔ترقی ان اقوام کا طواف کرتی ہے جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔سرخرونی ان اقوام کو نصیب ہوتی ہے جن کے نوجوان محنت میں عظمت کا رازپالیتے ہیں۔وہ اقوام آگے بڑھتی ہیں جن کے نوجوان جہاد مسلسل کو اپنا شعار بنالیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ محنت کے سمندر میں غوطہ زن ہوکرہی کامیابی کے لعل وگوہر کو پایا جاسکتا ہے،عزم وہمت کے صحرا میں آبلہ پانی کرنے سے کامیابی کے نخلستان تک رسائی مل سکتی ہے،جستجو کے میدان میں خیمہ زن ہوکر ہی سربلندی کے راز کو پایا جاسکتا ہے،جذبہ وجنون کی چوٹی کو سرکرکے ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑھنا نصیب ہوتا ہے۔

ترقی یافتہ،خوش حال اور کامیاب اقوام کی تاریخ میں یہی راز پوشیدہ لے کہ انھوں نے اپنی ناکامی میں کامیابی،شکست میں جیت اور ذلت میں عزت کو تلاش کرنے کا ہنر جان لیا ہے۔

آج جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا معاشرہ جمود کا شکار نظر آتا ہے۔ ترقی کے بجائے ہم تنزلی کی طرف جارہے ہیں، ہمارے نوجوان معاشرے سے بیگانگی اوربیزاری کا شکار نظر آتے ہیں۔ان میں مشکلات کا مقابلہ کرنے کی سکت نظر آتی ہے،ہمارے نوجوانوں کی اجتماعی سوچ پر انفرادی سوچ غالب نظر آتی ہے اور نہ ہی آگے بڑھنے کی لگن اور حوصلہ دکھائی دیتا ہے۔

منشیات کی لت اور سماجی اداروں کی ناقص کارکردگی نے نوجوانوں کو حالات کے رحم وکرم پر لاکھڑا کیا ہے۔نوجوانوں میں احساس ذمہ داری کا فقدان نظر آتا ہے۔آج ہمارے نوجوانوں کے اکثریت اپنی ذمہ داریوں سے بے بہرہ اور معاشرے کے مسائل سے لاتعلق نظر آتی ہے۔

تربیت کے اہم عناصر میں خاندان کوسب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے اور خاندان میں والدین کی حیثیت کلیدی ہوتی ہے،خاندان کی تربیت کا اثر افراد پر زندگی بھررہتا ہے۔ اگر خاندان اپنا کام بخوبی انجام دے تو معاشرے کو سلجھے ہوئے باکردار افراد میسرآسکیں گے جو کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار کرتے ہیں۔

خاندان کے بعد اہم کردار تعلیمی اداروں کا ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں زیادہ ترتعلیمی اداروں میں تربیت نام کی کوئی چیزنہیں آتی۔تعلیمی ادارے تعلیم وتربیت سے زیادہ وقت گزاری کے اڈے نظر آتے ہیں،جہاں پر جند گھنٹے گزارنے کے بعد بچہ چند رٹائے ہوئے اسباق کے ساتھ گھر کی راہ لیتا ہے،استاد اور شاگرد کا وہ مثالی رشتہ بھی اب نابید ہوچکا ہے۔نہ استاد اپنی ذمہ داریوں کو نیک نیتی سے نبھانے کو تیارہے اور نہ ہی شاگرد اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا متمنی نظر آتا ہے۔

معاشرے کی ترقی اور نوجو انوں کی تربیت میں سیاسی اور سماجی تنظمیوں کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اپنے فرائض سے غافل نظر آتے ہیں۔صرف اقتدار اور پروجیکس کا حصول ان کا مطمہ نظر بن کررہ گیا ہے جب کہ ماضی میں کسی بھی سیاسی اور سماجی تنظیم کی پہلی ترجیح نوجوانوں کی اخلاقی اور علمی تربیت ہوتا تھا لیکن آج ہماری سیاسی اور سماجی تنظمیں شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہوچکی ہیں۔آج نظریے کی نہیں بلکہ شخصیات کی پیروی کی جاتی ہے۔

ہم ابھی تک ماضی کے دھندلکوں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔نہ ہمیں حال کی ضروریات کا ادراک ہے اور نہ ہی مستقبل کے چیلنجز سے باخبر ہیں۔ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا شدید فقدان اور مایوسیوں کا برسو راج نظر آتا ہے۔ہم تنقید کے ماہر ہیں لیکن اصلاح سے ہمیں سروکارنہیں۔ سستی،کاہلی اور بے حسی ہمارے اٹوٹ انگ کا روپ دھارچکے ہیں۔ ہم تبدیلی چاہتے ہیں لیکن خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہماری نگاہوں آسمان پر لیکن پاؤں کیچڑ میں ہوتے ہیں۔ دنیا کو تسخیر کرنا ہمارا خواب ہے لیکن خواب کوحقیقت کا روپ دینے کے لیے کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔

اب وقت آگیا ہے سیاسی اور سماجی ادارے اپنا کر دار بخوبی اداکریں۔ نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کو حرزجاں بناکر ہی ہم معاشرے میں تبدیلی لاکے اہل ہوسکتے ہیں نوجوانوں کے متحرک بناکر ہی تحریک کی ابتدا کی جاسکتی ہے،حوصلہ مند اور باصلاحیت نوجوان ہی طوفان کا دھارا تبدیل کرسکتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے ک ہم لفاظی کے بجائے عملی اقدامات کواپنا مقصد بنالیں۔ محض گفتار کا غاری بننے سے نہ سماجی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے اور نہ ہی ترقی ہوسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!