پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
خان مبشرہ فردوس، اورنگ آباد
کشمیر کے مسئلے پر جوں ہی بی جے پی کے بعض ذمہ داران نے کشمیری لڑکیوں سے متعلق بیہودہ ٹوئیٹ کی تبھی اندازا ہوا کہ اصل گراوٹ تو اخلاق کی گرواٹ ہے اصل تنزل تو کردار کا تنزل ہے۔برسرِ اقتدار رہ کر اپنی قوم کو آپ گراوٹ کا نذرانہ دے رہے ہیں وہیں جب ایسے ارادے ہمارے نوجوان لڑکوں اور مرد حضرات کے کان میں پڑتے ہیں تو انکی نگاہ میں کی غیرت انگڑائی لیتی ہے انکی وہ نظریں جو رات دن ٹی ڈراموں اور فلموں کی وجہ سے بے لگام ہورہی تھیں۔ایسی خبروں کی وجہ سے جھک جاتی ہیں۔بچہ بچہ غیرت مندی کے ساتھ برقعہ پوش خواتین کو احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔
مسلم بہنوں سے متعلق ہوس پرستوں کے ارادوں نے غیر ارادی طور پرمردوں کی نظروں کو جھکادیا۔
ہمارے معصوم بچوں نے جب ہاسٹلوں میں کشمیری نوجوانوں کو اپنے والدین سے رابطہ نہ ہونے پر روتے بلکتے دیکھا تو ۔۔۔ان ذہنوں نے سمجھ لیا کہ ظلن بری چیز ہے ۔۔۔انسانیت عظیم چیز اور برملا کہا بھی کہ ہمارا مذہب بہترین مذہب ہے کسی پر ظلم کرنا نہیں سکھاتا ۔۔جب برسرِ اقتدار قوموں کے لڑکوں نے کشمیری لڑکیوں پر پھبتیا کسی تو ہمارے نوجوانوں نے عورت کے احترام کے درس کو دل میں دہرا کر کہا کہ شکر ہے ہمارا مذہب ہمیں گراوٹ کی اس انتہا پر نہیں پہنچاتا ۔۔۔
پورے ماحول پر اسکے یہ اثرات ہوئے وہ رکشے اور ٹیکسی والے جو پہلے میرر درست کرکے پہلے تاکا کرتے تھے اب انکی نظریں راستوں پر بھی ایک احترام کے ساتھ اٹھنے لگی ہیں ۔۔غلطی سے بھی اگر غیر مسلم شخص کی ٹیکسی کو روک دیں مسلم رکشہ نزدیک آکر کہتا ہے میں اسی طرف جارہا ہاں باجی ۔۔ اور پھر سمجھاتا ہے باجی حالات اچھے نہیں غیر کے رکشہ میں نہ بیٹھنا ہی اچھا ہے
۔بہت احترام کے ساتھ نگاہ جھیکی ہوئی ہم نے محسوس کی ہے ۔
یہاں تک کہ دکاندار اور ان میں کام کرنے والے لڑکوں کی آنکھوں میں بھی آپکو احترام نظر آئے گا ۔
یہ ایک نفسیاتی اصول ہے کہ ذمہ دارانہ روش بیدار اسی وقت ہوتی ہے جب افتاد پڑتی ہے ” اور نوجوان اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر معاشرتی غیرت کو اھمیت دینا شروع کردیتا ہے ” ۔
موب لینچنگ کی ویڈیوزکو وائرل کرکے ہمارے نوجوانوں کو راستوں پر رات دیر تک مٹر گشتی کرنے سے باز رکھنے میں کامیابی کا پہلو ہے ۔۔۔یہی موب لنچنگ جس کی دھشت آپ نے پھیلا رکھی ہےہم مایوس نہیں ہے ۔۔۔
ہمارےنوجوانوں کو بال رنگ کر اور ٹائیٹ جینز پہن کر ہاتھ میں موبائیل لے کر لہراتے گھومنے سے باز رکھنے کے لیے کافی ہوگی ۔۔یہ بے ہوش نوجوان اپنے فیشن کے نشے سے نکل کر محافظ بنے گا کہ ” نہیں مجھے بیدار ہونا چاہیے کہ ایسے حالات نہ میں محفوظ ہوں نہ میرے افرادِ خاندان یہ لہر بھی انہیں مرد آہن،، اور مرد مجاہدبناکر چھوڑے گی ”
یہ اس وقت کی بات ہے جب بی جے پی نے اقتدار سنھبالتے ہیں پانچ لاکھ خواتین کی طلاق سے متعلق ڈبیٹ شروع کیا تھا اخبارات اور نیوز چینل نے ابھی مسلم خواتین پر ظلم ختم کرنے کے لیے مسیحائی کا ڈرامہ شروع ہی کیا تھا اس وقت ہم اپنے معاشرے کی تصویر آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں ۔۔۔اس وقت بشمول ہمارے سبھی مذہبی افراد نے لوگوں کو شریعت پر ہورہی حکومتی حملے سے خائف ہوکر بیداری پیدا کرنے کی کوششیں جاری کردیں تھیں ۔
ہم نے بھی اپنے کالج کی طالبات کو سوال پوچھتے ہوئے کہا ۔۔۔
آپ جانتی ہیں حکومت طلاق ختم کرنا چاہتی ہے ۔
بیک زبان ہوکر بچیوں نے ۔۔۔جی میم پتہ ہے
(یوں بھی بی جے پی کی آمد نے ہمارے بچے بچے کو بادل کی گھن گرج کی طرح جگا ہی دیا تھا نیوز دیکھ کر ہی بچے گھر سے نکلنے لگے تھے اور والدین کے تبصروں سے بچوں کے مائنڈ سیٹ کا اندازا بھی ہوجاتا تھا )۔۔۔جی میم طلاق ختم ہونی چاہیے ۔۔
ایک لڑکی نے کہا طلاق دے کر مرد عورت پر ظلم کرتا ہے ۔
ایک نے بتایا ہماری ملازمہ کو چار بچوں کے باوجود شوہر نے طلاق دے دیا ۔۔۔ایسے قصہ کئی طالبات سناتی رہی تھیں اور بعض طالبات تو، خود مطلقہ خاتون کی زیرِ کفالت تھیں۔۔مطلب جہالت کو ہی ہمارا معاشرہ شرعی احکام سمجھنے لگا تھا ۔
“”حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں،،
ہم نے دل ہی دل افسوس بھی کیا کہ معاشرے کی صورتحال ایسی ہے کہ احکامِ شریعت کا شعور تک نہیں ۔۔ہر ملاقاتی خاتون سے لیکر ہر جاننے اور نہ جاننے والی خاتون کو تک اسی طرح کے خیالات میں کم و بیش متذبذب پایا ۔۔یہ ہمیں کہہ لینے دیجیے کہ حقیقت یہی تھی ۔۔۔سوائے مدرسے کی فارغات کے اور فارغین ِ جامعہ کے ہم نے ٹھیکہ دے رکھا تھا کہ احکامِ شریعیہ اور علوم شرعیہ کو جاننا صرف انکی ذمہ داری ہے ۔ شرعی احکام سے نابلد مرد و خواتین بھلا کہاں اسلامی خاندان اور اسکی اکائی کو فروغ دے پاتے ۔۔۔
جن طالبات کا ذکر کیا یہ چھوٹی نہیں تھیں کالج کی طالبات تھیں ۔۔بلکہ ہمارے مشاہدے میں ایک ذمہ دار شخص شعور رکھنے اور اثر رسوخ رکھنے والے صاحب نے اپنی دختر کے طلاق کے موقع پر تین مرتبہ طلاق لکھوائی تھی ۔
ہم نے بساط بھر کوشش کے مصداق اپنے کالج کی طالبات کو نہ صرف طلاق اور اسکی حکمت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔مہر کی اھمیت اور نکاح کی شکل کا بدل جانا غلط رسوم و رواج ۔۔۔اور مقاصدِ نکاح ۔۔۔اورمہر کی قسمیں اور اسکا شعور سمجھانے کی کوشش کی لوہا گرم دیکھ کر ضرب لگاتے ہوئے ۔۔۔ مہر کے طے کرنے میں پاکدامنی اور پاکباز ی کی اھمیت کو واضح کیا کیوں اس وقت ہمیں طالبات کی اصلاح کے لیے یوں لگا کرتا کہ لڑکیوں اور لڑکوں کی فحاشی سے دور رکھنا ہی سب سے بڑا محاذ ہے ۔۔اس وقت ہم شرعی مسائل ڈسکس کرنے کا ارادہ باندھتے کہ بچیاں منہ چھپانے لگتیں کہ طلاق جیسے مسائل بھی بھلا سننے اور سمجھنے کی چیز ہے ۔۔
اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ کالج میں ایڈمیشن لینے والی نئی طالبا ت سے ہم طلاق پر سوال پوچھا ۔۔۔
یقین کریں حیران کن تھے دروغ بر گردنِ راوی
مختلف اسکولوں سے کالج میں ایڈمیشن لینے والی طالبات کے جواب کا تقابل کریں تو سجدہ شکر بجالائے بندہ ۔۔۔۔طلاق ثلاثہ بدعت ہے ۔۔میم
طلاق کو شریعتِ اسلامی میں رکھنے کا مقصد انسانیت کی ذہنی فکری اور جذباتی بقاہے،،
اور حکومت کا اس طرح طلاق کو ختم کرنے کا منصوبہ ھندوستان جیسے جمہوری اور سیکولر ملک میں اقلیت کے پرسنل لا پر حملہ ہے ۔
ایک بچی نے یہ بھی کہا کہ میم طلاق نہ ہوتی تو ہمارے معاشرے میں بھی لڑکیاں شادی کے بعد جہیز کےلیے جلادی جاتی ۔۔۔
اور ایک نے کہا یہی طلاق ہے جس کی وجہ سے کنیا دان نہیں کی جاتی اور سسرال والوں کو لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی کھلی اجازت نہیں مل جاتی
والدین بیٹی سے شادی کے بعد بھی محبت دلجوئی باقی رکھتے ہیں ۔۔۔دکھ اور تکلیف میں وہ خودکشی کرنے کے بجائے والدین کا راستہ کھلا ہونے کا احساس ہوتا ہے
ہمارا سوال تھا ۔۔یہ سب کیسے پتہ چلا ۔۔میم ٹی وی پر بے تکی ڈبیٹس بھی دیکھی ہے
اور ہمارے سر نے ہماری اسکول کی معلمہ نے ۔۔ہمارے اسکول میں اس پر لیکچر رکھے گئے ان مہمان مقرریں نے ۔۔۔کس کو خود والد نے سمجھایا ۔۔۔کسی طالبہ نے کہا ممی کے ساتھ اجتماعات میں پتہ چلا ۔۔۔
اسلام کی فطرت میں اللہ نے لچک دی ہے
اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبادو گے
اس شعر کا ادراک اس بہتر کیا تھا
یقین کریں اتنے بڑےپیمانے پر ہم اصلاح معاشرہ کا صرف تصور ہی کرسکتے تھے ۔۔۔والدین اپنی بچیوں کی انگلی تھامے محفوظ کالجیز میں چلے آرہے ہیں کہ حالات خراب ہیں ۔۔لڑکیاں ایک صحت مند مصروفیت میں مشغول ہیں کہ فلاں نے کیا بیاں دیا اور فلاں عالم کا جواب کس پائے کا ہے ۔۔۔۔اب حکومت کا نشانہ ہے تعدد ازدواج ہم مایوس نہیں کہ مسلمان خاتون کی اسکی حکمت حقانیت سے نہ صرف واقف ہوں گی بلکہ روبہ عمل لائے گی ۔۔۔
نیو طلاق کے بل سے متعلق ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ لڑکوں کی ماؤں کو شریف خاندان کی دیندار لڑکیاں سے نسبت جوڑنے پرمجبور کر ہی دیا ۔
سادگی سے نکاح اور جہیز سے اجتناب برتے گی کہ لڑکی کا جہیز کا زعم اسے خودسر نہ بنادے ۔
۔۔۔ہر وار باطل کا ہمیں ایک قوم،، ایک جمعیت بنارہا ہے ۔۔مسلکی اختلاف کو ختم کرتے ہوئے ایک اسٹیج پر لانے میں کار گر ثابت ہوگا ۔۔۔ہمارے دیکھنے کے زاویے بدل رہا
ہماری ترجیحات کو بھی خاموشی سے بدل رہا ہے ۔۔۔ہم جو
ماڈرن ازم کے زیرِ اثر اپنے دین اور شریعت سے دور ہونے لگے تھے اب اسکی جانب متوجہ ہیں یقین کریں ہمارے اصلاح معاشرہ کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات اتنی پراثر تبدیلی
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا، ۔۔۔
کون بھلا اس ایشو سے پہلے مسلم پرسنل لا کی طرف متوجہ تھا ۔۔۔
کون بھلا سوال پوچھتا تھا کہ پرسنل لاء بورڈ کیا کوشش کررہا ہے ۔۔؟؟؟
کس نے سمجھا تھا کہ پرسنل لاء کی ھندوستان میں کیا اھمیت ہے ۔۔؟؟؟
اب حکومت جو بھی ایشو اٹھاتی ہے ہم تو کسوٹی مانیں گے ۔۔کہ جہاں چور کا خوف ہوگا وہیں سیکوریٹی گارڈ رکھاجائے گا ۔