مسلم قیادت: واضح تبدیلی، واضح اشارے
ابوفہد، نئی دہلی
آج کے حالات میں جس طرح مسلم دنیا بڑی آزمائش کی گھڑی سے گزررہی ہے، ٹھیک اسی طرح مسلم قیادت بھی بڑی آزمائش کے دور سے گزررہی ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ دور مسلم قیادت کے لیے عبوری دور ہے۔دنیا میں چل رہی اتھل پتھل اور ابنارمل حالات سے مسلم قیادت کسی طرح سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ہندوستان کا معاملہ اس عمومی صورت حال سے غیر متعلق نہیں ہے بلکہ بعض وجوہ کی بنیاد پر یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کا معاملہ باقی مسلم دنیا کے برعکس کچھ زیادہ ہی نازک ہے اورہندی مسلمان وقت کے اس چوراہے پر کھڑا ہے جہاں سے اسے کسی ایک طرف مڑ جانا ہے۔اور یہ مڑجانا کوئی معمول کا مڑجانا نہیں ہے بلکہ موت اور زندگی کے دوراستوں میں سے کسی ایک کو چننے جیساہے۔ میں یہاں واضح طور پر یہ کہنے کی کوشش میں ہوں کہ یہ وقت ملک میں مسلم قیادت کی اعلیٰ کمان میں واضح تبدیلی کے واضح اشارے دے رہا ہے،
جیسے چُھٹی کا وقت ہوگیا ہے اور کچھ ہی دیر میں گھنٹی بجا چاہتی ہے، بس کچھ ہی پلوں میں۔ مسلم قیادت بھی تبدیلی کے اعتبار سے وقت کے بالکل آخری سرے پر کھڑی ہے۔ اگر وقت رہتے قیادت کی تبدیلی کی نوعیت اور سیٹنگ کو اجتماعی منصوبہ بندی کرکے اسے اپنے موافق کرلیا جائے تو بہت ممکن ہے کہ قیادت کی یہ تبدیلی مستقبل قریب یا بعید میں اچھے نتائج پیدا کرے لیکن اگر ایسا نہ کیا گیا اور حالات اور وقت کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا اور اونٹ کے بیٹھنے کا انتظار کیا گیا ، یہ دیکھنے کے لیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہےتو بہت ممکن ہے کہ آنے والا وقت اور حالات ہمارے حساب سے سیٹ نہ ہوں۔اور وقت کے کروٹ لینے کے بعد ہم وہ سب کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں جس میں ہم اس وقت ہیں اور کچھ نہ کچھ تو کرہی سکتے ہیں۔
ہندوستان میں مسلم قیادت کے لیے یہ بہت ہی نازک وقت ہے اورکسی بڑی تبدیلی کا واضح اشارہ دے رہا ہے۔ کیونکہ آنے والے چند سالوں میں مسلم امت کے تعلق سے جو پہلی چیز ہوگی وہ یہ ہوگی کہ موجودہ قیادت نئے ہاتھوں میں چلی جائے گی، آج جو چہرے ہمیں نظر آرہے ہیں وہ کل نہیں ہوں گے، کل کے حوالے سے میں مستقبل قریب کی بات کررہا ہوں۔
لہذا ہمیں چاہئے کہ ہم مسلم قیادت میں اس اندرونی تبدیلی کو سوچ سمجھ کر اور منصوبہ بندی کے ساتھ لائیں،جب بھی اور جس طرح بھی موجودہ بزرگ قیادت کی جگہ خالی ہو اور اسے بھرنے کا موقع آئے تو ہم سمجھ داری کا ثبوت دیں، ملت کے نوجوانوں کو آگے آنے دیں، جمہوری طرز عمل کو فروغ دیں اور بزرگ قیادت کی جگہ ہم جن لوگوں کو آگے بڑھائیں وہ زیادہ سمجھدار اور صاحب علم ہوں، کسی کو بھی موروثیت کی وجہ سے آگے نہ بڑھائیں ۔ہاں! اگر وارثین دین ودنیا کے معاملات میں کمال اور تفقہہ رکھتے ہیں اور صاحب علم اور تجربے کار ہیں تو انہیں آگے بڑھانے میں کچھ مضائقہ نہیں ، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ یہ عمل بھی مشاورتی اور جمہوری ہو۔
موجودہ قیادت نے ہمیں کئی جگہ مایوس کیاہے اور تاحال کررہی ہے۔یہاں جب میں قیادت کی بات کررہا ہوں تو یہ بات قیادت کے ہر ایک فارم اور پلیٹ فارم کو شامل ہے ۔کسی خاص قیادت کو نشانے پر رکھ کر بات نہیں کررہا ہوں ۔ملی قیادت کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم بین المذاہب مکالمات کا ہے اور ملک کے اکثریتی طبقے اور برسراقتدارحکومت کے ساتھ مذاکرات اور ڈائلاگ کا ہے۔اور سچ بات تو یہی ہے کہ ان بڑے اور اہم پلیٹ فارمز پر ہماری موجودہ قیادت نے مایوس کیا ہے، ہماری موجودہ قیادت یہاں بھی متفرق نظر آئی ہے۔
افتراق کی کیا بات کریں ، افتراق تو امت کے لیےپانی و ہواکی طرح ہے کہ امت اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی ۔ابھی حال فی الحال میں ہی دہلی میں ایک بڑا صوفی فیسٹول ہوا ، جس میں امت کے ایک طبقے کو نمائندگی دی ملی، اس طبقے کی خوشیاں دیدنی تھیں، چہرے چمک رہے تھے اوردل خوشیوں سے لبریز تھے ۔
مگرافسوس کہ ’’ کام یاروں کا بقدر لب ودنداں نکلا‘‘۔ بوہرہ مسلمان بھی اس حوالے سے خوش قسمت رہے کہ انہیں میدان سیاست کے ایک منہ بولے سنت کے بول بچن سننے کا موقع ملا۔ جمعیت بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہی، اس کے ایک دھڑے کو بھی شرف بازیابی ملا، وہ اس شرف بازیابی جتنا اترائیں کم ہے، جبکہ جمعیت کے دوسرےدھڑے کے سربراہ سیدھے سنتوں کے مرکز ہی میں جا پہونچے، کہ جب گنگا میں نہانا ہی ہے تو یہاں وہاں کیا نہانا ، گنگا کے ان مقامات پر ہی جا کر نہایا جائے جہاں سے وہ نمودار ہوتی ہے۔
جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے اعلان ہواکہ ابھی ملاقات کا وقت نہیں آیا۔ دوسرے لوگ تو گنگا نہا لئے مگر بورڈ کے لیے ابھی وقت نہیں آیا۔اسے بورڈ کی سادہ لوحی کہہ لیں یا اصولوں کی سختی کے ساتھ پاسداری ۔تیسری طرف ملت کا ایک بڑا طبقہ یعنی شیعہ برادری کی قیادت کھلے چھپے ایک زمانے سے پینگیں بڑھا رہی ہے اور اس طبقے کے دو بڑے چہرے نقوی اور رضوی نے وفاداری کی مثال قائم کردی ہے۔ یہ لو گ تو بقول غاؔلب مکہ ومدینے میں دفن کئے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں:
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
ایسی صورت حال میں سوال یہ ہے کہ ملاقات کی ہوڑ کیوں لگی ہوئی ہے اور ان انفرادی ملاقاتوں سے ملت کی متفرق قیادت کیا حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اورمختلف ذہنیتوں بلکہ کسی قدر متضاد اقدار وادیان والے ممالک میں بین المذاہب مکالمات اور برسراقتدار جماعت کے ساتھ سیاسی سطح کے ڈائیلاگ بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس پلیٹ فارم پر پچھڑ جانا اور اپنے عمل سے یہ پیغام چھوڑنا کہ کوئی قوم خاص کر اقلیت اکثریت اور حکومت کے مقابل آج بھی متفرق ہے تو یہ اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے۔
مگر کیا کریں کہ ہماری قیادت کے تمام کے تمام گروہوں نے یہی سب کیا۔ اس بہت ہی اہم پلیٹ فارم پر بھی وہ اپنی یکجہتی اور اتحاد کو ثابت نہیں کرسکے۔ یہ بھی اپنے آپ میں کتنا کھلا مذاق ہے کہ غیر اقوام سے اتحادو اتفاق اور اظہار یکجہتی کے لیے بے تابیاں ظاہر کی جارہی ہیں اور اپنوں سے دوریاں بنانے بلکہ انہیں پیچھے چھوڑ کر خود آگے بڑھ جانے کی روایت کو مستحکم کیا جارہا ہے۔ یہی سب عالمی سطح پر مسلم قیات کررہی ہے اور یہی سب ملکی سطح پر بھی ہورہاہے۔