ہرن کی غذااوررہائش کے تحفظ کا سامان نہیں کیاجارہاہے: سرشٹی انسٹی ٹیوٹ کے طلبہ کی تحقیق
بیدر: 6/ستمبر (وائی آر)سینکڑوں سال قبل زیرزمین آبی گذرگاہیں 38ممالک میں تھیں۔ اسی طرح آپ کے شہر بیدر کی آبی گذرگاہیں بھی بہمنی سلاطین کے دور میں تعمیر کی گئی ہیں۔ یہ بات سرشٹی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس، ڈیزائن اینڈ ٹیکنالوجی بنگلورکے طالب علم مانن (چھتیس گڑھ۔ رائے پور) نے یہ بات طلبہ کو بتائی۔
وہ وزڈم کالج کے طلبہ سے آج جمعہ کو ”کاریز (آبی گذرگاہیں) سسٹم“ عنوان پر خطاب کرتے ہوئے طلبہ میں بیداری پیدا کررہے تھے۔ انھوں نے طلبہ سے مختلف سوالات کئے جس کے طلبہ نے مناسب اور معقول جوابا ت دئے۔ مانن نے مزید بتایاکہ پروفیسر گووندا کٹی (کیرلہ) کے مطابق بیدر کے کاریزسسٹم (آبی گذرگاہوں) میں پانی نیچے سے اوپر کی جانب جاتاہے۔
کارنجہ ڈیم کے علاوہ اہلیان بیدر کو پینے، پکانے اور نہانے دھونے کے لئے پانی کاریز سسٹم سے بھی مل سکتاہے۔لیکن اس کے لئے آبی گذرگاہوں کے نظام کی تجدید عمل میں آنی چاہیے۔ دوسرے طالب علم ڈیوڈ ورگیز نے Saving Grass Landsعنوان پر بتایاکہ بیلورا، زمستاں پور،اور چٹہ وغیرہ میں مسطح زمین ہے جس کو ہم Grass Landکہہ سکتے ہیں جہاں ہرنیں ہوتی ہیں۔
عموماً جنگلوں کی حفاظت کے قوانین تو ہیں، لیکن Grass Lands کی حفاظت کے لئے قانون نہیں ہے۔ ان ہی Grass Landسے ہرنوں کو غذاملتی ہے اور یہی وہ پانی کے لئے آتی ہیں۔ ہرن چونکہ دنیاکا سب سے تیز رفتار جانور ہے لیکن اس کی غذااور رہائش کا کوئی سامان نہیں کیاجارہاہے۔
ڈیوڈ ورگیز نے طلبہ کو بتایاکہ بیدر میں لومڑی کم ہورہی ہے، یہاں کے جنگلوں میں شیر نہیں ہیں تاہم ہرن بڑی تعداد میں ہیں، صنعت کاری کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی غذااور رہائش خطرے میں پڑچکی ہے۔انھوں نے کامک کے ذریعہ بھی ہرن کی زندگی کو درپیش خطرے کو دکھایا۔ واضح رہے کہ سرشٹی انسٹی ٹیوٹ بنگلور کے ایک اور طالب علم نوین کمار کشواہا نے کیمبریج پی یوسائنس کالج بیدر میں طلبہ کو بیدر پر بنائی گئی اپنی فلم دکھائی تھی۔