حکمت: بزدلی میں نہیں، شجاعت میں ہوتی ہے
آصف انظار ندوی
شیروں کا معصوم ہرنیوں کا شکار ظلم نہیں ہے اور نہ ہی ہرنوں کا نرم ملائم گھاس اور کومل کومل سنبل کو اپنے بے رحم جبڑوں سے ریزہ ریزہ کرتے ہوئے جگالی کرنا جرم ہے۔۔۔
ظلم ہے تو یہ کہ ہرن گھاس چرنا چھوڑ دے۔۔۔۔۔اور دنیا گھاسوں ڈھک جائے
ظلم ہے تو یہ کہ شیر ہرنوں کو کھانا چھوڑ ددیں اور ہرنیں اتنی زیادہ ہوجائیں کہ انسانی آبادی کے لیے اناج کا ایک دانہ بھی اگنے نہ دیں۔۔
ایک تصویر یہ بھی ہوسکتی ہے کہ۔۔۔چرند ودرند اپنی فطری زندگی چھوڑ دیں تو ان کا وجود ختم ہو جائے گا۔۔ہرن گھاس کھائے بنا مر جائیں گے شیر ہرنوں کا شکار کئے بنا ناپید ہوجائیں گے۔۔۔
آپ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ طبیعت اور جبلت سے بغاوت موت ہوتی ہے۔۔۔۔
آپ بزدلی کو خیرسگالی کا نام دیکر بہت دنوں تک سروائیو نہیں کر سکتے
آپ دنیا کو ظلم سے خالی کرنے اور عدل و انصاف سے بھرنے آئے ہیں
تو آپ کو اپنی ترجیحات طے کر نی چاہیے۔۔۔
آپ کے لیے ترجیحات کا کوئی بہت کشادہ اور مادر پدر آزاد میدان نہیں ہے
آپ مسلمان ہیں تو آپ کی ترجیحات محدود اورمتعین ہیں
طریقۂ حصولِ ترجیحات البتہ آپ کے اجتہاد پر منحصر ہوسکتی ہیں۔۔۔ورنہ جب
لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ پڑھتے ہیں تو آپ کی ترجیحات طے ہوجاتی ہیں۔۔۔آپ فطری ودیعت سے بغاوت کرکے نہ اپنے جیسے لوگوں کا بھلا کر سکتے ہیں نہ عام انسانیت کا۔۔۔
آپ ڈر کی نفیسات کے ساتھ صرف کمزور انسانیت کو ظالموں کے پنجے میں دے سکتے ہیں انکو بچانہیں سکتے
بحیثیت ِ قوم آپ کی بقاء ظالموں کے خلاف کھلی للکار میں ہے نہ کہ تملق اور چاپلوسی میں۔۔۔۔۔شیر کو ہمیشہ شیر رہنا چاہیے اور ہرن کو ہرن
پروپیگنڈہ وار سے متاثر ہوکر آپ بیل کے کندھے سے جوا نہیں اتار سکتے
بیل کے کندھوں کا جوا انسانیت کی خوارک کاذریعہ ہے اور بیلوں کی انسانوں کے ساتھ رہنے کی ضمانت۔۔۔۔
ہمارے قائدین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ
قوم کو عزت کی طرف نہیں ذلت کی طرف لے جارہے ہیں
حکمت اور بزدلی کے فرق کو سمجھیں،۔۔۔۔حکمت ہمیشہ شجاعت میں ہوتی ہے
اور تملق کسی بھی حال میں محمود نہیں