یوم اساتذہ: اساتذہ سےکیا چاہتا ہے!
مرزا انور بیگ
اساتذہ کی عزت افزائی کے لئے آج کا دن ہندوستان میں خصوصاً تعلیمی اداروں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن مدرسین کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور ان کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ تقاریب بھی ہوتی ہیں جس میں طلباء ٹیچرز کا کردار ادا کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس گہما گہمی میں ہم معلم حقیقی کو بھول جاتے ہیں۔ جوں جوں دنیا علم سے آراستہ و پیراستہ ہوتی جارہی ہے انسانی قدریں تنزلی کا شکار ہوتی جارہی ہے اور انسان صرف مال کمانے کی دوڑ میں سرگرداں ہے۔ تمہیں ایک دوسرے سے مال و ثروت میں آگے بڑھ جانے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ قبر تک پہنچ جاتے ہو۔ (التکاثر)
انسان کا اس طرح سرمائے کا غلام بن جانا اسی تعلیم کا نتیجہ ہے جو خدا کے وجود کو تو اب چار و ناچار تسلیم تو کرتی ہے مگر اس کی رہنمائی کے عمل دخل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان تعلیم یافتہ جانور بنتا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد حیات زیادہ سے زیادہ کچھ دور تک سوچ سکتا ہے تو بس یہی کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ ملازمت اور پھر عیش و آرائش کا حصول اور اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش۔ چونکہ یہ تعلیمی نظام حرام حلال کے علم سے مبرا ہے اس لئے حصول علم کے لئے بھی اور حصول ملازمت کے لئے بھی رشوت کی گرم بازاری۔ تجارت میں انتہائی منافع خوری، جھوٹی تشہیر بازی وغیرہ اس کے لزومات میں شامل ہو گئے ہیں۔
ٹیچر کا احترام اس لئے لازم تھا کہ والدین ہمیں آسمان سے دنیا میں لاتے ہیں اور ٹیچر دنیا سے اٹھا کر آسمان انسانیت پر پہنچا دیتا ہے مگر آج تعلیمی اداروں میں تیار ہونے والا مال انسان کو احسن تقویم سے گرا کر اسفل السافلین تک لے آیا ہے۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہم معلم حقیقی کو بھول چکے ہیں۔ معلم حقیقی صرف اللہ کی ذات ہے۔
فرمایا
” اقرا “
پڑھو۔
معلم و مدرس کا کام پڑھانا ہے۔ پھر اس پڑھائی کا مرکز کس کی ذات ہو یا یہ کس کی طرف سے یا کس کے ذریعے سے پڑھایا جارہا ہے اس پڑھائی کا منبع کیا ہے۔ اس بات کو ابتدا میں ہی صاف کردیا گیا۔
” بسم ربک “
“اپنے رب کے نام سے”
یعنی یہ تعلیم کسی چھوٹی موٹی ہستی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ تیرے پالنہار، تیرے مربی ، تیرے رازق و مالک کی طرف سے ہے۔ اور اسی نے تجھے پیدا کیا۔
” الذی خلق”
جس نے پیدا کیا۔ پھر یہ بھی بتا دیا گیا کہ پڑھنا کیا ہے۔
جس نے پیدا کیا، جس نے تخلیق کی۔ یعنی رب کی تخلیق کے بارے میں پڑھنا ہے۔ رب نے کیا کیا تخلیق کیا، اس تخلیق کی ابتدا، اس کے اجزاء، اس کے ایک دوسرے سے روابط، ذرہ سے لے کر اجرام فلکی تک کی تخلیق اور ان کا آپسی رشتہ اور ان تخلیقات کے اور خالق کے درمیان انسان کی تخلیق اور پھر ان تینوں کا آپسی ربط کہ انسان کی ان دونوں کے درمیان حیثیت کیا ہے اس کا علم ان تمام کے بارے میں پڑھنا۔
پھر فرمایا
” خلق الانسان من علق”
انسان کو علق سے تخلیق کیا۔
یہاں دو طرح کے علوم کی وضاحت کردی گئی ہے۔ پہلی آیت میں عام تخلیقات کے بارے میں پڑھنے کے لئے کہا گیا اور دوسری میں انسان کی اپنی تخلیق کے بارے میں پڑھنے کو کہا گیا۔ اس طرح علوم کے ہر موضوع کو ان دو آیات میں سمیٹ لیا گیا۔ ان سے باہر کوئی علم نہیں اور اس کا ذریعہ اور منبع خدا کی ذات کو ٹھہرایا گیا کہ اس کے نام سے پڑھو یعنی پڑھتے وقت کسی بھی طرح اس کی رہنمائی سے روگردانی نہیں ہونی چاہیئے اس کو ہر وقت ہر کام میں یاد رکھنا اور اس کی رہنمائی کے مطابق کرنا۔
پھر سے فرمایا
” اقرا وربک الاکرم الذی علم بالقلم “
پڑھو ، کہ تمہارا رب بہت مہربان ہے جس نے قلم کے ذریعے سے تمہیں علم دیا
استاد کی شفقت تمام تعصبات سے پاک اور بالاتر ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا کہ پڑھو کہ تمہارا مربی و معلم بہت مہربان ہے جس نے نہ صرف زبانی علم دیا بلکہ جس طرح کا علم دے رہا ہے اس میں تحقیق و جستجو کے لئے قلم کو ذریعہ بنایا تاکہ وہ اس علم کو ضبط تحریر میں لاکر اس کو منافع بخش بھی بنا سکے اور دوسروں تک بحفاظت پہنچا بھی سکے اور محفوظ بھی کرسکے۔ لہذا اس نے قلم کے ذریعے اپنی اس مہربانی کا اظہار کیا۔
پھر فرمایا
” علم الانسان یعلم ما لم ”
انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
اس طرح علم حاصل کرنے کے پورے عمل کی وضاحت ان ابتدائی پانچ آیات میں کردی گئی۔
اول معلم حقیقی اللہ کی ذات جو رب ہے۔ مربی ہے اور علم دینا اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے
دوم اسی کی رہنمائی میں علم حاصل کیا جاۓ تو جو نتائج برآمد ہوں گے وہ فلاح انسانیت کے لئے ہوں گے۔
سوم علم کا کوئی شعبہ دین و دنیا میں تقسیم نہیں ہے بلکہ اس کی رہنمائی حاصل کیا گیا تمام علم اسی کے احکام کی تکمیل ہے۔
چہارم یہ کہ تمام دنیا کا علم حاصل ہوجائے اور اپنی ذات کی تخلیق کے علم سے واقف نہ ہو بلکہ اس کا علم بھی حاصل کرے اور نہ صرف تخلیق انسانی بلکہ مقصد تخلیق انسانی کا علم بھی حاصل کرے۔
پنجم یہ کہ اس کے لئے قلم یعنی تحریر بھی ذریعہ حصول علم ہے اس کے بغیر علم کی تکمیل نہیں ہوسکتی اس لئے اس کا استعمال اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ذریعے سے علم کو محفوظ کرکے دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ہے۔ اور یہ رب العالمین کا اکرام، مہربانی اور نوازش بھی ہے اس لئے قلم کا استعمال بھی غلط نہیں ہونا چاہئے۔
اس طرح معلم حقیقی کی رہنمائی میں حاصل کیا ہوا علم حرام و حلال کی حدود میں ہوگا، غیر متعصب ہوگا۔ انسان کی اصل حیثیت کو اجاگر کرنے والا ہوگا۔ انسان کا انسان سے۔ انسان کا دیگر مخلوقات سے اور انسان کا اپنے رب سے توازن قائم کرنے والا ہوگا۔ یہی ایک معلم کا منصب بھی ہے کہ وہ اپنے زیرنگیں طلباء کو ان کی اپنی پہچان کردے۔
اس لئے معلم حقیقی کو پہچانئے۔
یوم اساتذہ کی سبھی کو دلی مبارکباد