سماجیمضامین

تین طلاق کا قانون اور کرنےکے کام

طارق ایوبی

طلاق ثلاثہ بل کا جامع اور مختصر خلاصہ یہ ہے کہ یہ قانون اب تک کا سب سے بھونڈا اور لنگڑا قانون ہے ۔ جو کہ انصاف دلانے کے نام پر عورت کو مزید مظلوم بنا دے گا ۔ اسکی حیثیت نہ گھر کی ہو گی نہ گھاٹ کی۔

صاحب مسئلہ صرف ۳ طلاق پر پابندی کا نہیں ہے ۔ صرف یہاں تک مسئلہ ہوتا تو اور بات ہوتی۔ اس قانون کی ذیلی شقوں کی رو سے طلاق رجعی کے علاوہ طلاق بائن کی ہر شکل پر پابندی ہو گی ۔ جن صورتوں میں عورت مظلوم ہوتی ہے اور وہ کسی صورت رہنا ہی نہیں چاہتی صرف اور صرف طلاق بائن کا ہی مطالبہ کرتی ہے یا خلع ہی چاہتی ہے وہ اب مرد کی طلاق رجعی کی مرہون منت بن کر رہ گئی ۔ اور یاد رہے جس طرح طلاق کا حق مطلق مرد کو ہے اسی طرح رجعت کا بھی حق بلا شرط اسی کو حاصل ہے۔ اس بل سے بائن کی تمام شکلیں خلع اور حق حضانت اور قانون نفقہ سب ختم اور کالعدم ہو گئے ۔ اور دار القضا کے لیے بھی نکاح فسخ کرانا اور اس کا اعلانیہ نوٹس دینا بہت بڑا چیلنج بن گیا اب ۔

اب دو کام بہت تیزی سے کرنے کے ہیں، ایک تو قرآن کے طریقہ تفریق زوجین سے ہر ہر فرد کو جنگی پیمانے پر واقف کرانا ، اسکے لیے مدارس کے آخری سال کے طلبہ کو مختصر ٹریننگ دے کر پورے ملک کے چپہ چپہ پر یہ کام کرایا جائے ، ہر شہر کے بڑے مدرسہ یا جامع مسجد میں کاونسنلنگ سینٹر فورا قائم کیا جائے اور مسلمانوں کو اس پر آمادہ کیا جائے کہ زوجین کے اختلاف کی صورت میں طلاق سے قبل ایک بار دونوں ایک ساتھ سینٹر ضرور جائیں۔ بہت ممکن ہیکہ مصالحت کی سبیل پیدا ہو جائے کیونکہ قرآن کا یہ جملہ بہت معنی خیز ہیکہ ” اگر دونوں صلح کرانے والے مخلصانہ طور پر مصالحت کی کوشش کریں تو اللہ زوجین کے درمیان اتفاق پیدا فرما دیں گے ” ان يريدا إصلاحا يوفق الله بينهما ( نساء ٥٣). ورنہ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے گا کہ اس قانون کی شقوں سے بچتے ہوئے تفریق کی سبیل نکل آئے گی ۔
دوسرا کام یہ ہیکہ اس قانون کو فوری طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے ۔ مگر چیلنج کرنے سے قبل درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے :
۱ ۔ کریڈٹ کی ریس بالکل نہ ہو ۔
۲۔ متعدد درخواستیں صرف مسلم خواتین اور مسلم خواتین کی تنظیموں سے دلوائی جائیں ۔

۳۔ پرسنل لا بورڈ اورجمعیت پس منظر میں رہ کر ہرممکن مدد ان تنظیموں کی کریں مگر سامنےآ کر بالکل بھی فریق نہ بنیں ۔
۴۔ درخواستوں میں صرف ذیلی شقوں اور قانون کے خطرنک جھول کو ہی چیلنج کیا جائے ، فی الحال تین طلاق کو بھول جایا جائے اور قطعی اس کا ذکر درخواست میں نہ کیا جائے ۔
اور جو کچھ بھی ممکن ہو وہ صحیح ، پختہ اور ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ سنجیدگی سے کیا جائے ۔ اس پر اس طرح کا احتجاج بھی مفید ہو گا جس سے یہ موضوع عالمی میڈیا میں چھا جائے اور اس قانون کی لولی لنگڑی ظالمانہ دفعات عالمی تنقید کا نشانہ بن جائے اور دنیا عوامی مخالفت سے واقف ہو جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!