مذہبیمضامین

اسلامی جماعتوں کامعذور کو صحت مندوں کے سامنے تماشہ کی طرح پیش کرنا کون سی عقل مندی ہے!

مرزا انور بیگ

جب تک دین کی دعوت اپنے فطری انداز میں حکمت ، موعظت، استقامت اور خلوص کے ساتھ دی جاتی ہےاپنے اندر اثر پذیری رکھتی ہے لیکن جب اس میں دکھاوا اور شعبدے بازی شامل ہوجاتی ہے تو وہ اپنا اثر کھونے لگتی ہے۔

پہلے عیسائی مشنریوں نے شعبدے بازی کی ابتدا کی۔ دراصل جب کسی کے پاس اپنی دعوت و عقائد کے مضبوط دلائل نہیں ہوتے تو وہ لوگوں کو رجھانے کے لئے شعبدے بازی کا سہارا لیتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنی دعوتی تقریریں انگریزی میں کرتے تھے وجہ یہ تھی کہ انھیں اردو یا ہندی ٹھیک سے بولنا نہیں آتی تھی اور وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی دعوت غیر مسلم کے لئے اور پڑھے لکھے طبقے کے لیے تھی۔ ان سے اختلاف رکھنے والی جماعتوں نے بھی کچھ انگریزی بولنے والے افراد تیار کیے اور پھر ان سے اپنے عالمی اجتماعات میں اردو انگریزی تقریر کروا کر منتظمین اجتماع نے یہ فقرہ کسا کہ ” اگر وہ ذاکر ہے تو ہمارے پاس کئی ذاکر ہیں۔ اور اصل ذاکر تو ہم ہی ہیں۔ “

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تماشے کی ضرورت کیا تھی۔ آپ کے پاس ٹھوس اور سچی باتیں ہوں گی تو لوگ خود بخود آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے ورنہ تماشہ دیکھنے کے لئے جتنی تیزی سے لوگ آۓ ہیں تماشہ ختم ہوتے ہی اس سے زیادہ تیزی سے تماش گاہ خالی کردیں گے۔ ابھی پچھلے دنوں مسجد میں ایک جماعت آئی۔ تین دن قیام کیا۔ جماعتوں میں بھی اکثر اوقات ایسی چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

مثلاً غیر ملکی جماعت اپنی تقریر اپنی زبان میں کرتی ہے جس سے علاقے کے لوگ ناواقف ہیں لہذا ایک مترجم ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ مقرر اپنی تقریر دو منٹ کرتا ہے اور مترجم دس منٹ میں اس تقریر کا اردو ترجمہ مکمل کرتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سبھی ملکوں کی جماعت کی تقریر میں نقطہ برابر فرق میں نے بچپن سے اب تک محسوس نہیں کیا۔ اب یہ مترجم کا کمال ہے یا جماعت کا اللہ جانے۔

تو میں اس جماعت کے بارے میں عرض کر رہا تھا۔ وہ جماعت گونگوں کی جماعت تھی۔ ہو یہ رہا تھا کہ پہلے ایک ساتھی کھڑا ہو کر اعلان کرتا کہ بھائی بزرگو دوستو، آپ کی مسجد میں گونگوں کی جماعت آئی ہے۔ ابھی یہ آپ کے سامنے اعلان کریں گے۔ پھر جماعت کا ایک ساتھ اٹھ کر ہاتھ کے اشاروں سے کچھ حرکتیں کرتا اس کے بعد پھر مترجم صاحب کہتے، بھائیو بزرگو دوستو یہ کہہ رہے ہیں کہ نماز کے بعد تشریف رکھیں جماعت آئی ہے کچھ دین کی بات ہوگی۔ نماز سے فارغ ہو کر پھر اشارہء اعلان و ترجمہ ءاعلان ہوتا پھر گونگی تقریر شروع ہوتی۔ مقرر ہاتھ سے کچھ دیر اشارے کرتا اور مترجم اس کا ترجمہ پیش کرتا۔ ٹھیک وہی جو میں بچپن سے سنتے آیا تھا۔ تقریر ختم ہوتی اور اسی انداز میں دعا کی جاتی۔

سوال یہ ہے کہ کیا ضرورت ہے اس تماشہ بازی کی؟ پہلی بات تو دعوت دین صاحب صحت و استطاعت پر فرض ہے نہ کہ معذوروں پر۔ ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ یا تو ان لوگوں کو سمجھائیں جو انہی کی طرح معذور ہیں۔ صحت مندوں کے سامنے انھیں تماشہ کی طرح پیش کرنا کون سی عقل مندی کا تقاضہ ہے؟ انھیں تماشہ بنا کر ان کی تضحیک کرنا کون سا ثواب کا کام ہوا۔ ایک شرابی جو شراب خانہ چھوڑ کر آپ کے ساتھ آیا ہے آپ بار بار دنیا کے سامنے اس کی پچھلی زندگی کا بکھان کرکے اگر اس کی عزت نفس کو مجروح کررہے ہیں تو یہ کون سا دینی عمل ہوا۔ وہ کہنے پر مجبور ہوا کہ حضرات جب میں شراب پیتا تھا تو اتنا بدنام نہیں ہوا جتنا آپ لوگوں کے ساتھ شراب چھوڑ کر ہورہا ہوں۔

بلا شبہ آپ نے شرابیوں ، جواریوں، نشہ بازوں اور مرتد قسم کے افراد کو مسجد کا راستہ دکھایا تو اب ان کو اشتہار اور شعبدے بازی میں نہ تبدیل کریں بلکہ ان کے آنے سے پہلے جس طرح بنا شعبدہ دکھاۓ لوگوں کو پیار محبت دلسوزی کے ساتھ بلاتے تھے اسی انداز میں اب بھی بلائیں۔ ہم جانتے ہیں آپ کے اندر ملت کا درد ہے۔ آپ ان کی اصلاح کے لئے فکر مند ہیں۔

اگر لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے تو یہ آپ کی نہیں لوگوں کی ناکامی ہے آپ تو فکر اور درد کی وجہ سے عنداللہ ماجور ہوں گے مگر شعبدے بازی کے طریقے اپنا کر آپ سب کچھ کھو دیں گے۔ لوگوں کو بھی اور آخرت کو بھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!