لو انقلاب گونج اُٹھاہے شاہین باغ سے
شاہانہ خانم، حیدرآباد
گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے
ہم اہل ہند بھی کہاں ڈرتے ہیں داغ سے
گھر کو بچانے آئیں ہیں جب گھر کی بیٹیاں
لو انقلاب گونج اٹھاہے شاہین باغ سے
اشرف المخلوقات میں مرد اور عورت کے جنس میں عورت کو جو حیثیت اسلام نے عطا کی ہے دوسرے ادیان میں دور دور تک اس کا تصور بھی نہیں ملتا ہے۔ جب ہم انسانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں معاشرے میں کمزور وزیردست ظلم کی چکی میں پسے جاتے تھے، غرض اس دور میں سب سے زیادہ مظلومیت عورت کے حصے میں اتی تھی،عورت ذات مجموعی طور پستی،ذلت،رسوائی اور اذیت میں مبتلا تھی۔پر جو اسلام نے عورت کو درجہ دیا ہے شاہدہی کوئی مذہب میں ملتی ہو۔
بھارت رتن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا شمار ہندوستان کے مانے ہوئے سماجی مصلحین،سیاسی ومعاشی وفلاسفر میں ہوتا ہے۔ انھیں بھارت کے دستور کا معمار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے دلتوں کو سماجی، مذہبی اورسیاسی حقوق دلانے کے لئے ہرممکن حد تک کوشش کی اوروہ اس میں کامیاب بھی رہے۔رائے دہند گان کے اختیارات،قانون سازاسمبلی میں نمائندگی اورنظام حکومت میں شرکت وغیرہ سیاسی اختیارات دلتوں کی فلاح وبہبود کے لیے بہت اہم تھے۔آج حکومت ہم سے ثبوت مانگا مہنگا پڑا اس لئے کاغذکو کھنگالنا مہنگا پڑاگیا وہ توچین سے تھے۔ سب تدابیریں CAB نے کچھ کام کیادیکھا اس بیماریں بل نے کیساکام تمام کیاناحق ہم ایمانوالوں پر توہمت ہے دغداری غنڈہ گری آپ کروں ناحق بچوں کوبدنام کیاہم اس مٹی کے ہیں ہمارے خون میں حب الوطنی اور قربانی کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور وقت آنے پر اپنے وطن کے جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ یہ تعلیم ہمیں اسلام سے ملی اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے علمی مظاہرے نے ہمیں امن کے راستے پر چلنے وطن کے لئے قربان ہونے کی تربیت دی ہے۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اس میں سارے ملک میں احتجاج ہورہا ہے۔اور اس میں دن بہ دن شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔
ایک طرف خواتین نے الگ الگ مقامات پر غیر معینہ مدت کا دھرنا شروع کررکھا ہے تو دوسری طرف ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا سٹرک پراتر کر مودی حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف نعرے بلند کررہے ہیں۔ اس درمیان شہریت ترمیمی قانون،این آر سی اور این پی آر کے خلاف پرانا شہر حیدرآباد کے نوجوانوں انوکھا احتجاج دیکھنے کوملا۔منگل کی شام اپنی دکانات کی روشنی بند کردی اسکا مقصد سیاہ قانون کے خلاف آواز اٹھا نا تھا۔ تاجروں نے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنی لائٹس بند رکھی شاہین باغ سے جمہوریت کو بچانے کی آواز اٹھ رہی ہے اور ملک کی نصف آبادی شاہین باغ سے اٹھنے والی آوازکی حمایت کررہی ہے شاہین باغ،روشن باغ،پھول باغ،سبزی باغ یعنی باغوں میں بہار آگئی ہے اتحاد کا پرچم بلند کرنے کی قومی اتحاد کا میں آئین وجمہوریت بچانے کی آواز اٹھنے لگی۔
امیت شاہ اور مودی کی حکومت شہریت کے نام پرمذہبی بٹوارہ کرنے اور ملک کو سیکولر مزاج اورانصاف پسند عوام نے حکومت کی نیت کو بھانپ لیا جامعہ ملیہ، جے این یو کے طلبا میں تحریک کے میدان میں اترپڑے کہ ہمارے ملک میں ظلم سے حکومت نہیں چلے گی۔
شاہین باغ میں ہمارے ملک کے تہذیب تمدن کی جھلک جو بلا تفریق مذہب وملت پرامن طریقے سے مرد عورتیں شامل ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت کی تانا شاہی اب نہیں چلے گی۔آزادی سے پہلے جب انگریزوں نے ہمارے ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا تھا۔ تب بھی ہماری یہی یکجہتی جس میں ہر مذہب کے لوگ،شعراء،طلبا، پیپر میڈیا، علماء اور سب سے بڑکر خواتین نے اپنے اپنے طریقوں سے قربانیاں دے کر اس گلشن ہند کو سجایا تھا اور آج ہماری حکومت نے شہریت ترمیمی قانون کے ذریعے ملک کو وہی انگریزوں والی پالیسی کے تحت ملک کو غلامی کی زنجیروں میں باندھنا چاہتی ہے۔ شاہین باغ کی خواتین عزم اور حوصلے کے ساتھ جمی ہوئی ہیں سردیوں کے موسم میں بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں جامعہ کے طالبات نے یہ عہد کررکھا ہے کہ وطن پرآنچ نہیں آنے دیں گے،بابا صاحب کے دستو ہند سے کھلواڑ کرنے نہیں دیں گے۔چاہے اس کے لئے ہم پر لاٹھیاں برسائیں،گولیاں ماریں یا قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے پڑی کریں گے۔ خواتین کی ہمت جرأت اورحوصلے کودیکھ کر ؎
خدا جب چاہئے لو امِ عمر ایمان لاتی ہے
وہی امِ سلمہٰ حاملہ جنگ میں جاتی ہے
کنواری ماں بنی مریمؓ کہی عیسیٰ کو جنم دیتی ہے
وہی موسیٰ کی ماں بنی آسیہ اسکو بچاتی ہے
یہ جو بیٹی بچاؤ کا نعرہ دیتے ہیں یہ بیٹی جورحمت بن کر کسی کے گھر آتی ہے تم کیا اسے بچاؤ گے وہ توآج ہندوستان کو بچانے کے لئے قربان ہونے کو تیار ہے۔ مگر تم اس کے سہاگ، گود کو اجاڑنے کی کوشش کرو گے تو پھرانجام سے کیا ڈرنا!!!!
کیا خواتین اور کیا بچے! سبھی اس احتجاج کا حصہ بنتے نظر آتے ہیں۔ اس احتجاج میں مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اپنی فنکاری کے ذریعہ حکومت کی،فرقہ وارانہ‘ پالیسی کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں اور اس دوران ملک سے محبت اور آئین کی حفاظت کا جذبہ بھی خوب نظرآرہا ہے۔ کہیں مصنوعی انڈیا گیٹ تو کہیں پینٹنگ میں بھارت کی تہذیب وثقافت اور ہندو،مسلم،سکھ اور عیسائی کے اتحاد کو پیش کیا گیا ہے۔ اس آرٹ کے بیچ شاہین باغ میں فیض احمد فیض کی وہ نظم بھی کاغذ کی کشتیوں کی شکل میں گونجتی نظر آئی جو پورے احتجاج کی دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پورے ملک میں ہونے والے احتجاج میں درالحکومت دہلی کے شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ایک نئی عبارت لکھی ہے۔ جامعہ نگر شاہین باغ علاقے میں خواتین اس قانون کے خلاف تقریباً ایک ماہ سے زیادہ تحریک چلارہی ہیں۔یہ تحریک ہرروز ایک نئی اورانوکھی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اسی بیچ سب سے اہم اور قابل تعریف وہ منظر تھاجب ہندو،سیکھ،عیسائی اور ایک ساتھ دعائیہ محفل کا اہتمام کیا اور سبھی لوگ اپنے اپنے مذہبی طریقے سے سی اے اے کے خلاف احتجاج کرتے نظر آئے۔
آدمی ہی کے بنائے ہوئے زنداں ہیں یہ سب
کوئی پیدا نہیں ہوتا کسی زنجیر کے ساتھ
آزادی خداتعالیٰ کی عطا کردہ ایک نعمت ہے،ہرانسان کوآزادپیدا کیا گیا اور یہی آزادی اس کے بنیادی حقوق میں امتیازی مقام رکھتی ہے۔ مال ودولت،منصب ومقام اور ہوس کے پجاری شیطان نماانسان اپنے ذاتی مفاد کی حصولیابی کے لیے دوسروں کی آزادی اور شخصی حقوق پرحملے کرتے ہیں۔ مردان خرکو پیش دیوارِ زنداں کیا جاتا ہے، طوق وسلاسل میں جکڑا جاتا ہے،بیڑیاں،پیروں کی زینت بنتی ہیں لیکن ایسے نازک موقع پر غیرت مند قوم بیداری اور شجاعت کا ثبوت دیتی ہے۔ انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے طاغوتی جالوں کو تہس کردیتی ہے، پھندوں میں پھنسنے کے بجائے دشمن کوگھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے اور صرف طاقت وقوت کی نمائش کرتی بلکہ عقل وشعور کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے سیاست وتدبیر کا عمدہ مظاہرہ کرتی ہے۔
مایوسی کا شکارہوجانا بلاشبہ ایمان کہ کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ اور جمود کوفوقیت دیتے ہوئے فقط امید ورجاکردامن تھام لینا بھی قلتِ علم وحکمت کا غمازے،ایک مومن کامل امید ورجاکے ساتھ ساتھ عمل وتدبیرکے ذرائع بھی اپناتا ہے۔
خو اتین اور بچے سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں۔ شاہین باغ دہلی میں جواحتجاج مظاہرہ جاری ہے وہ خواتین نے ہی شروع کیا ہے اور شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرہ کی خوشبو اور مہک سے سارا ہندوستان معطر ہوگیا ہے۔ نتیجہ میں ملک کے ہر حصہ میں خواتین احتجاج کرنے لگی ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ مسلم خواتین گھر کی چہاردیواری تک محدود ہوتی ہیں۔ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے لیکن مسلم خواتین نے سی اے اے، این آر سی اوراین پی آر کے مسئلہ پر گھروں سے نکل کر یہ بتادیا ہے کہ وہ اپنے باپ، بھائیوں، شوہروں اوربیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنے جمہوری حقوق کوپامال کرنے اور انہیں چھیننے کی اجازت کسی کونہیں دیں گے چاہے وہ مودی اورامیت شاہ ہی کیوں نہ ہوں۔
ہماری خواتین نے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوتے ہوئے مودی حکومت کو یہ پیام دیا ہے۔ چاہے وہ کتنے ہتھکنڈوں سے ہمیں بدنام کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ خود بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ ملک کو جس سازش سے غلام بنانا چاہتے ہیں وہ اس سازش میں ناکام ہونے والے ہیں اس لئے وہ کوشش کررہے ہیں۔ مگر ان کا پلا اس ملک کی خواتین سے پڑا جو تاریخ میں اپنی ہمت بہادری سے انگریزوں کو دھول پٹائی تھی۔حکومت کی پالیسی پر یہ شعر کے ساتھ میں ختم کرتی ہوں۔
فطرت ہے جس کی کاٹنا، وہ کانٹے گا یقینا
کیا سانپ سے بوسے کی رضا مانگ رہے ہو