سماجیمضامین

تمہیں اُس رات نیند کیسے آئی؟

ایم ودود ساجد

مذکورہ بالا سوال دیوبند کے ان 40 مکینوں سے ہے جنہوں نے گزشتہ 10 اگست کی شب دہلی سے دیوبند کا سفر کیا تھا۔

مجھے اس موضوع پر لکھنے میں کئی دنوں تک تکلف رہا۔..یہ تکلف بہت سے اسباب کے تحت تھا۔لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ کئی گھرانوں کا نقصان ہوسکتا تھا۔کافی غور وخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے لکھنا چاہئے۔۔۔۔لہذا کوشش یہ ہے کہ اصل نفس موضوع پر گفتگو ہو اور جس پہلو سے نقصان کا اندیشہ ہو اس کا بس سرسری طور پر ذکر کردیا جائے۔۔۔

یہ قصہ مغربی اتر پردیش کے مشہور قصبہ دیوبند کی اُس پریشان حال نوجوان لڑکی کا ہے جس کی ہمالیائی پریشانی کا اِدراک ہوجانے کے باوجود دیوبند کے ان 40 میں سے 39 مسافروں کا دل نہیں پسیجا اور وہ اسے روتا بلکتا دہلی کی سڑکوں پر چھوڑ آئے۔۔۔۔

دہلی نمبر 13میں بھوگل اور لودھی روڈ کے درمیان واقع ایک بستی میں مذہبی اہمیت کے حامل دو مقامات قائم ہیں۔۔۔یہاں سے دیوبند کے لئے صبح وشام دو چھوٹی بسیں چلتی ہیں۔ ہر مسافر سے 200 روپیہ وصول کئے جاتے ہیں۔جانے والے پیشگی فون کرکے اپنی سیٹ بک کرادیتے ہیں۔۔۔ اس لڑکی نے بھی اپنی سیٹ بک کرائی تھی۔۔۔ یہ بس تقریباً چار گھنٹوں میں دیوبند پہنچا دیتی ہے۔۔۔۔یہ بس مظفر نگر اور دیوبند کے ان لوگوں کے لئے راحت کا سامان ہے جو صبح کسی کام سے آتے ہیں اور شام ڈھلے دیوبند واپس ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ 10اگست کی شب ٹھیک 8 بجے جب یہ بس جانے کے لئے تیار تھی تو ڈرائیور کے پاس فون آیا: ہیلو انکل میں گڑگاؤں سے واپس آرہی ہوں۔۔ میں جام میں پھنس گئی تھی۔۔ اب میں میٹرو میں ہوں۔۔میں دس منٹ میں پہنچ جاؤں گی۔۔۔۔ انکل میں آپ کو دوگنا کرایہ دے دوں گی۔آپ دس منٹ کے لئے بس روک لیجئے۔

ڈرائیور نے دیگر مسافروں کا رویہ دیکھ کر یہ فون دہلی میں مقیم دیوبند کے ایک خداترس انسان کو تھمادیا۔۔۔۔انہوں نے لڑکی سے پوچھا کہ بہن تم کہاں سے آرہی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ بھیا میں کسی انٹرویو کے لئے گڑگاؤں آئی تھی اور دہلی میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔اگر آپ مجھے لے کر نہ گئے تو مجھے دہلی میں رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ملے گا۔۔۔یہاں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔۔۔میں یہاں کسی کو نہیں جانتی۔۔۔

اس خدا ترس انسان نے لوگوں کو سمجھایا کہ لڑکی ذات ہے۔دیوبند کی ہی ہے۔مسلمان ہے۔تم سب بھی مسلمان ہو۔تہوار قریب ہے۔اور ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ایسے میں اگر ہم اس لڑکی کو لے کر نہ گئے تو ہم پر لعنت۔۔۔۔

کسی طرح بس کے کچھ مسافر خاموش ہوگئے۔لیکن ڈرائیورنے لڑکی سے یہ کہہ کر بس اسٹارٹ کردی کہ ہم آگے جا رہے ہیں اور تم مدر ڈیری پر آجانا۔وہاں ہم تمھارا انتظار کریں گے۔

یہ لڑکی گڑ گاؤں سے بذریعہ میٹرو آرہی تھی۔۔۔۔دیوبندجانے والی یہ بس پکڑنے کے لئے اسے میٹرو کے جور باغ اسٹیشن پر اترکر آٹو پکڑنا تھا۔۔۔۔۔ یہاں سے بس کے شروع ہونے کی جگہ محض ڈیڑھ کلو میٹردور تھی۔۔۔لیکن احمق ڈرائیور نے اس جگہ ٹھہرکرانتظار نہ کرکے بس کو آگے کی طرف بڑھادیا۔۔۔۔ یہاں سے مدرڈیری کا فاصلہ ساڑھے 10کلو میٹر ہے۔۔۔یعنی اب اس لڑکی کے لئے بس کا فاصلہ ڈیڑھ کلو میٹر سے بڑھ کر 12کلو میٹر ہوگیا۔۔۔ یہی نہیں اسے یہ فاصلہ بس کے مقابلے آٹو سے طے کرنا تھا۔۔۔لڑکی اس کے لئے بھی تیار ہوگئی۔۔۔۔اس دوران وہ بار بار فون کرکے اپنی Location بتاتی رہی اور اپنی یہ ’بِنتی‘دوہراتی رہی کہ بھیا یہاں میرا کوئی نہیں ہے۔۔۔اگر آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو معلوم نہیں میرا کیا حشر ہوگا۔

اِس دوران بس کے باقی 39 مسافر اِس ایک خداترس مسافر پر گرجتے برستے رہے جس نے ڈرائیورسے اس لڑکی کے لئے انتظار کرنے کو کہا تھا۔۔۔ان مسافروں میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تھیں اور ان کے بچے بھی تھے۔۔۔۔اس کے باوجود ان کے دلوں میں رحم کا جذبہ نہیں جاگا۔۔۔۔ راوی (واقعہ بیان کرنے والے) کے مطابق مدرڈیری پہنچتے پہنچتے مسافر بس کے ڈرائیور پر چڑھ دوڑے۔۔۔۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس ہانپتی کانپتی اکیلی لڑکی کے لئے بس روکی جائے۔اسی دوران لڑکی نے فون کیا کہ اس نے گاڑی دیکھ لی ہے اور یہ کہ وہ بھی پیچھے پیچھے آرہی ہے۔۔۔۔راوی نے ڈرائیور سے کہا کہ لڑکی ہماری بس کے پیچھے ہے۔آپ گاڑی ایک طرف روک کر اسے بٹھالو۔۔۔۔لیکن ڈرائیور نے لوگوں کا غصہ بھانپ کر انہی سے پوچھ لیا کہ لڑکی پیچھے ہے۔بتاؤ بس روکوں یا نہ روکوں۔۔۔۔لیکن سب نے یک زبان ہوکر شور مچادیا اور ڈرائیور نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ لڑکی پیچھے ہے‘بس نہیں روکی۔۔۔۔

لڑکی نے جب یہ دیکھا کہ بس نہیں رُکی تو اس نے گھبراکرفون کرنا شروع کیا۔پانچ یا چھ مرتبہ کال آئی لیکن اب ڈرائیور نے کال ریسیو نہیں کی۔اور پھر یہ ہوا کہ موبائل ہی بند کردیا۔۔۔۔ راوی کا اندازہ ہے کہ لڑکی آٹولے کر موہن نگر تک آئی ہوگی اور اس کے بعد نہیں معلوم کہ اس کا کیا بنا اور وہ کہاں گئی۔

یہ قصہ یہاں ختم ہوگیا۔۔۔۔
میں نے ایک عام افسر سے لے کر وزیر اعظم اور یہاں تک کہ صدر جمہوریہ تک کے خلاف لکھنے سے کبھی خود کو اتنا عاجز ومجبور نہیں پایا جتنا آج پاتا ہوں۔ میرے پاس مذکورہ بسوں کی اتنی تفصیل ہے کہ اگر لکھوں تو یہ بسیں بند ہوجائیں۔۔۔۔ایک ساتھ کئی اداروں کی بدنامی اور کئی شخصیات کی جو رسوائی ہوگی وہ الگ۔۔۔۔لیکن یہ سوچ کر خود کو روک رہا ہوں کہ دیوبند کے جو لوگ ان بسوں کو اپنے لئے راحت کا سامان سمجھتے ہیں وہ اس سہولت سے محروم ہوجائیں گے۔۔۔۔

لیکن مجھے اتنا تو ضرور عرض کرنا ہے کہ میرے علم کے مطابق ان بسوں کو چلانے کے لئے کوئی لائسنس یا پرمٹ نہیں لیا گیا ہے۔ان بسوں کو دیوبند کے ایک بڑے تعلیمی ادارے اوردہلی کے ایک بڑے اشاعت دین کے مرکز کے نام پر چلایا جارہا ہے۔اس کاروبار میں دیوبند کے ایک بڑے دینی خانوادہ کا ایک فرد بھی حصہ دار ہے۔۔۔دیوبند پہنچ کر یہ بسیں اسی ادارہ کے احاطہ میں کھڑی ہوتی ہیں۔

جس روز مجھے اس واقعہ کا علم ہوا اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔۔۔۔۔ میں دیوبند کے ان 39 مکینوں سے‘جنہوں نے اس بے بس وبے کس لڑکی کو ساتھ لینے کے لئے محض آدھا گھنٹہ انتظار کی زحمت نہیں کی‘سوال کرتا ہوں کہ تمہیں اس رات کیسے نیندآئی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنے دل پر ہاتھ روک کر خود سے سوال کرنا چاہئے کہ اگر اس لڑکی کی جگہ خود ان کی لڑکی ہوتی تو ان کا کیا رویہ ہوتا۔۔۔۔؟ یہ ہے مسلمانوں کے جذبہ ترحم کا حال۔۔۔۔ ایسے میں ظالم حکمران کے مقابلہ ہمارے لئے خدا کی نصرت کیوں کر آئے گی۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!