ادبی دنیانثر

بڑا بھائی

افسانہ نگار: ابوفہد

بڑے بھائیوں کے لیے کسی قدر مصیبت کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بہت جلد بڑے ہوجاتے ہیں اور چھوٹے بھائیوں کے لیے کسی قدر راحت کی بات یہ بھی ہے کہ وہ بہت دنوں تک چھوٹے ہی رہتے ہیں۔یہ جنتے زیادہ دنوں تک چھوٹے رہتے ہیں ان کے لیے اتنے ہی زیادہ دنوں تک لاڈ پیار باقی رہتا ہے اور وہ جتنی جلد بڑے ہوجاتے ہیں ان کے سرپر اتنی ہی جلدی ذمہ داریوں کی گٹھریاں لاد دی جاتی ہیں۔

رافع بھی اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا تھا اور شاید یہی اس کی سب سے بڑی مصیبت تھی۔وہ ایسے زمانے میں دنیا میں آیا تھا جب بڑا ہونا کچھ قابل ذکر بات نہ رہ گئی تھی۔شہنشاہیت کا وہ زمانہ کبھی کا لَد چکا تھا جب بڑے بیٹے کو متفقہ طورپر جانشیں منتخب کرلیا جاتا تھا اور وہ اپنے باپ کی ملکیت کا تنہا وارث ہواکرتا تھا۔اس کےزمانے میں بڑاہونے کا مطلب ذمہ داریاں سنبھالنا اور قربانیاں دینا رہ گیا تھااور بس۔ بچپن کے معصوم دنوں سے جب ایک بار قربانیوں کا سلسلہ شروع ہوا تووقت کی رفتار سے رفتار ملانے کی ہوڑ میں دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔

رافع کثیرالعیال اور نادار خاندان کا چشم وچراغ تھا۔اس کے علاوہ اس کے پانچ بہن بھائی اور تھے۔سلیم جو رافع کے فوراً بعد تھا، پھر ایک بہن، پھر دو بھائی اور پھر سب سے چھوٹی ایک بہن۔اس کے والدکلیم الدین معمولی زمین دار تھے ،بس یہی کوئی دس پندرہ بیگھہ زمین رہی ہوگی ۔ زمین جنتا دیتی تھی تقریبا اتنا ہی اور کبھی کبھار اس سے بھی زیادہ خود کھا جاتی تھی ۔کھاد، دوائیاں ، پانی اور مزدوری سب کچھ تو مول کا تھا ۔جب وہ زمین کا پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے تو ان کے بچے بھوکے رہ جاتے اور جب اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کی کوشش کرتے تو زمین ان سے روٹھ جاتی اور فصل کے نام پر چند دانے ان کے ہاتھ پر رکھ دیتی۔کلیم الدین زمین کے علاوہ پشتینی شرافت کے بھی مالک تھے، ان کی تعلیم واجبی سی تھی مگر تہذیب داری میں وہ اپنے علاقے میں مشہور تھے۔

رافع کے ماں باپ اسے پڑھانا چاہتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جو بچےجتنا زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں وہ بڑے ہوکراتنا ہی زیادہ پیسہ کماتے ہیں اور انہیں پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ لہذااس کی ننھی پیٹھ پر خود اس کے وزن سے زیادہ بھاری بستہ لاد دیا گیا۔اور اس طرح اس نے اپنے لڑکپن کی قربانی دی۔یہ اس کی پہلی قابل ذکر قربانی تھی ۔وہ کئی سالوں تک کتابوں کابوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر ڈھوتا رہا۔ وہ روزصبح سویرے اٹھ جاتا اورنیم وا آنکھوں اور بے جان جسم کے ساتھ اسکول کے طویل اور اوبڑ کھابڑ راستے پر خود کو اتنی مشکل سے کھینچتا جتنی مشکل سے کوئی زخمی کتا اگلے پیروں کی مدد سے اپنے ٹوٹے ہوئےدھڑکو کھینچتا ہے۔
جب گھر کا خرچ اور خاص کربچوں کی تعلیم کا بوجھ کلیم الدین کی ہمت سے بڑھ گیااور وہ اپنے ناتواں وجود کو اس کے نیچے دبا ہوا محسوس کرنے لگے تو انہوں نے ایک دن اپنے بڑے بیٹے کو تنہائی میں بلایا جہاں ان کے علاوہ ران کی بیوی سکینہ بھی تھی۔
آسمان ابرآلود تھا،پرانی وضع پر کنکریٹ سے تعمیر کیے گئے ہال نماکمرے میں سہ پہرکی ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔کمرے میں ڈبل بیڈ اور چارپائی کے علاوہ راشن کا سامان بھی رکھا ہوا تھا۔ کمرےکی فضابوڑھےماں باپ کی فکرمندیوں اور مستقبل کے ان دیکھے اندیشوں سے بوجھل ہورہی تھی۔

دیکھو بیٹا ! ۔سکینہ نے درد ا ور پیار بھرے لہجے میں کہنا شروع کیا۔تم اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑے اور سمجھدار ہو ۔تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے باپ کی عمراب کام کرنے کی نہیں رہی، وہ اب بوڑھے ہوگئے ہیں اورجب سے انہیں دل کی بیماری لگی ہے تب سے تو وہ ایک تنکا توڑنے کے لائق بھی نہیں رہے۔ اب تم ہی پورے خاندان کا واحد سہارا ہو ۔ہم تمہیں بہت بڑا ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر تمہارے باپ کی ناگہاں بیماری نے ہماری اس تمنا پر پانی پھیر دیا۔اب تمہیں اپنے باپ کی ذمہ داریاں سنبھالنا ہوں گی۔
سکینہ کریم الدین کی ترجمان بنی ہوئی تھی اور وہ خود پلاسٹک کی کرسی پر اس طرح تن کر بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی پتھر کی مورتی ہوں ۔ان کی آنکھوں میں انجانے مستقبل کے خوف کے سائے تھرتھرا رہے تھے۔ اسے اپنے باپ پر بڑا ترس آیا۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔اور ماں کی ہر بات کا ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا۔وہ ا پنے اندر بھاری پن محسوس کرنے لگا،جیسے اس کی روح پر بہت بھاری پتھر رکھ دیا گیا ہو، کچھ دیرے کے لئے اسے لگا جیسے اس کاسر چکرا رہا ہے، وہ کچھ دیر یونہی دم سادھے بیٹھا رہا ، پھر بوجھل قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا۔اور آنگن میں خالی پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جیسے وہ تھک گیا ہو اور سستانا چاہتا ہو،یہاں اس کے چھوٹے بھائی بہن کھیل کود میں مگن تھے ۔کچھ دیر وہ انہیں خالی خالی نظروں سے تکتا رہا اور سوچتا رہا کاش وہ بھی ان کے برابر ہوتا۔

جلد ہی اس نے اپنے آپ کو ماں باپ کے فیصلے کے تئیں تیار کرلیا۔ اسکول کی یونیفارم اورکتابیں ویران طاق پر رکھ دیں۔ا ب وہ روز اندھیرے منہ اٹھ جاتا اور اسکول کے بجائے کھیتوں کی طرف جانے والے کیچڑ بھرے راستوں پر دوڑتا اورکودتا پھاندتا چلاجاتا۔ اور اس طرح رافع کو پڑھائی کی قربانی دینی پڑی۔ اور یہ پہلی قربانی سے زیادہ بڑی تھی اور زیادہ ضروری بھی ،کیونکہ اب اس کے گھر میں بھوک چہار جانب دندناتی پھرتی تھی اور اس کے والدین کو سوتے جاگتے خوابوں میں چڑیل بن کر ڈرایا کرتی تھی۔
اس کے اندر یہ خصوصیت تھی کہ وہ بہت جلد کسی بھی کام کے لیے خود کو تیار کرلیتا تھا اور اس میں جی جان سے لگ جاتا تھا، جب وہ کام کرتا تھا تو بس کام ہی کرتا تھا۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ انسان نہیں ، جن ہے۔ یہ اکیلا دس آدمیوں کے برابر کام کرتاہے۔

وقت سرخاب کے پر لگا کر اڑنے لگا اور وہ بہت جلد بڑا ہوگیا ۔تاہم ابھی وہ سترہ سال ہی کا تھا کہ اس کی شادی کردی گئی کیونکہ گھر میں ایک بہو کی ضرورت روز بروز بڑھتی جارہی تھی۔ماں باپ کوطرح طرح کے عارضے لاحق ہوگئےتھے اور چھوٹے بچوں پر پڑھائی کا خاصہ بوجھ تھا ۔وہ گھر کے کام کاج میں اپنے والدین کی بہت زیادہ مدد نہیں کرسکتے تھے ۔ کریم الدین کچھ دنوں تک اپنا بیماردل تھامے لشتم پشتم کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچتے رہےاور ایک دن اچانک ہی ان کے دل نے کام کرنا بند کردیااور سکینہ کی دنیا جیسے اندھیری ہوگئی ۔ رافع جو پہلے ہی سے ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دباہوا تھااب اس پر مزید ذمہ داریاں آن پڑی تھیں۔وہ آدھے ادھورے ہوکر بھی رافع کے لیے بڑا سہارا تھے، کاش وہ اور جیتے رہتے،جیسا بھی تھا ان کا دم غنیمت تھا۔

کہنے کو یہ شادی تھی یعنی خوشی کی بات تھی اور جب اس نے پہلی بار جنس مخالف کی مخروطی انگلیوں کاگرم لمس اپنی جلد کے رؤوں پر محسوس کیا تو اسے لگا کہ اس رشتہ کا نام شادی یعنی خوشی جس نے بھی رکھا ہے درست رکھا ہے۔ اس خوشی کا اثر اس کے چہرے پرصاف دکھائی دیتاتھا ۔ شادی کے بعد اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ تاریکی میں ڈوبے ہوئے لمحوں کی سن گن میں ڈوباہواسا رہتا ہے ، اس کی آنکھیں بظاہر کسی ظاہری چیز پر مرکوز ہوتی تھیں مگران کے عقبی پردوں پرانہیں تاریک لمحوں کی فلم چلتی رہتی تھی ۔کئی سالوں تک اس کی یہی کیفیت رہی ، اس عرصے میں یہ بھی دیکھا گیا کہ وہ بے خیالی میں کچن میں جانے کے بجائے باتھ روم میں گھس جاتا تھا۔جب تک اس پر بے خیالی کا یہ عالم طاری رہا وہ شادی بنام خوشی کو شادی ہی سمجھتا رہا ۔ یہ تو اسے بہت بعد میں جاکر معلوم ہوسکا کہ وہ آدمی بننے کی عمر سے پہلے آدمی بنایا گیا تھا۔اور یہ بھی قربانیوں کے تسلسل میں ایک طرح کی قربانی ہی تھی۔

سائشتہ کو وہ بچپن کے ان معصوم دنوں سے جانتا تھا جب اس کے احساسات کے تمام تار غیر مرتعش رہتے تھے، اس وقت اس کا وجودسرد اور پرسکون رہتا تھا ، سردی کے دنوں میں اس کے منہ سے جو گرم بھاپ نکلتی تھی وہ اس سے اپنی انگلیوں کے یخ بستہ پورؤں کو سینکنے کا کام لیا کرتا تھا۔شادی کے بعد وہ اپنے اور سائشتہ کے ایک الگ اور انوکھے وجود سے آشنا ہوا ، گرم اور فعال وجود سے، اسے اپنے وجود میں یہ تبدیلی بڑی خوشگوار معلوم ہوتی تھی ۔ سائشتہ نے اس کے سرد وجود میں حرارتیں بھردیں تھیں۔اور اسے ایک بالکل ہی مختلف انسان بناکر کھڑا کردیا تھا۔

اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اپنے کھلونوں سے پلاسٹک کی چینی گڑیا نکال لاتااور سائشتہ کے چہرے کے سامنے رکھ دیتااور کہتا بتاؤ کون زیادہ خوبصورت ہے؟۔ اس کے لئے تو سائشتہ بھی ایک گڑیا ہی تھی۔ ماں باپ اپنے شیر خواربچوں کے لیے پلاسٹک کی گڑیا لاتے ہیں اور نوجوان بچوں کے لئے گوشت پوست کی انسانی گڑیا۔ مقصد تو ایک ہی ہوتا ہے، ضدی طاقتوں کو توڑنا،اناکی تسکین کرنا اور وقت گزاری کی کوئی راہ ڈھونڈنا۔بچے اپنی اپنی گڑیاؤں کے ساتھ کھیل میں مست ہوجاتے ہیں اور ماں باپ اپنے کام کاج کے لیے فری رہتے ہیں۔
اس کی ایسی اوٹ پٹانگ حرکتوں پرسائشتہ کھل کھلا کرہنس دیتی، مگر وہ اس بات سے بے خبر رہتی کہ اس کا اس طرح بے اختیار ہنس پڑنا رافع کو مزید ایسی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے۔سائشتہ تم نے میرےناتواں اورسرد وجود کوقوتوں اورحرارتوں سے اس طرح بھردیا ہے جس طرح برسات کھیت کھلیان بھردیتی ہے۔وقت کے خاموش لمحوں میں وہ سائشتہ کے کان میں اس طرح سرگوشی کرتا جیسے کوئی راز کی بات کہہ رہا ہو۔سائشتہ چھوئی موئی کے پودے کی طرح اپنے پورے وجود کے ساتھ سکڑ جاتی اور اسی طرح کی سرگوشی کے انداز میں کہتی اور آپ نے بھی تو… آپ نے بھی تو ہمیں بے پناہ خوشیاں دی ہیں، آپ سے پہلے ہم اس طرح تھے جیسے دریا ہو اور اس میں پانی نہ ہو، آم کا باغ ہو اور اس میں مور نہ ہو۔

وہ بچپن ہی سے سنجیدہ طبیعت کا مالک تھا، کم گو اورکم آمیز۔اسے بس اپنی کتابوں سے پیار تھا ، جب کتابوں سے من بھرجاتا تو وہ سائشتہ کے گھر چلا جاتا۔اور گھنٹوں اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔کریم الدین جب کبھی بازار جاتے تھے تو اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے کی بہت ساری کی چیزیں بھی لاتے ۔چھوٹے بھائی بہن اپنے حصے کی چیزاسی وقت کھاکر ختم کردیتے مگر وہ اپنا حصہ کسی دوسرے مناسب وقت کے لیے اٹھاکررکھ دیتا ۔اور جب بعد میں پھرکسی وقت اسے کھانا چاہتا تو چھوٹے بھائی بہن اس میں بھی اپنا حق جتانے لگ جاتے اور جب وہ دینے سے انکار کردیتا تو وہ فرش پر اوندھے منہ لیٹ جاتے اور سارا گھربے ہنگم شور شرابوں سے بھر جاتا۔
رافع! ! دفعتا کچن سے اس کی امی کی چیخ ابھرتی، میں نے ہزار بارآپ سے کہا ہے کہ اپنی چیز فورا کھالیا کرو، مگر آپ سے تو کچھ کہنا ہی بے کار ہے،اب اس میں سے انہیں بھی دو۔
کیوں ! میں کیوں دوں، انہوں نے اپنے حصے کی چیزپہلے ہی کھالی ہے۔
اچھا تھوڑی سی دیدو۔ میں آپ کو اور منگوادوں گی۔
نانا، میں تو نہیں دوں گا۔
دیدو بیٹا ۔ آپ بڑے ہو، یہ تو ناسمجھ ہیں.. . وہ غصہ تھوک دیتیں اور اسے رجھانے کی کوشش میں لگ جاتیں،وہ رونا شروع کردیتا اورغصہ سے اپنے حصہ کی چیز ان کی طرف پھینک دیتا۔لو تم ہی کھالو سب۔جب بھی کوئی چیز آتی ہے یہ ایسے ہی کرتے ہیں، ہاں نئی تو..
کبھی ایسا ہوتا کہ ٹافیاں کم پڑجاتیں اور رافع کو ہی صبر کرنا پڑتا۔ کئی بار غلطی چھوٹوں کی ہوتی اور ڈانٹ اسے پڑتی ، کبھی اس بہانے کہ اس نے انہیں روکا کیوں نہیں اور کبھی اس بہانے کہ وہ ان کے ساتھ غلط کام میں شامل کیوں ہوا۔کسی کو چوٹ لگ جاتی اور وہ روتا بلکتا گھر آتا اور ماں بلاوجہ رافع پر برسنے لگتیں۔ان کے خیال سے اسے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا پورا خیال رکھنا چاہئے تھا جو کہ وہ نہیں رکھ پارہا تھا۔ اس کے بھائی بہن اس کی ہر چیز شیر کرتے تھے ، وہ اپنے لئے کھیلنے کی کوئی چیز لاتا ،وہ اس پر قبضہ جمالیتے ، کپڑے لاتا اور وہ ان میں سے کسی کو پسند آجاتے ۔ چل دیدو، آپ اپنے لیے اور لے آنا، ماں بھی چھوٹوں کی ہی طرفداری کرتیں ۔
چھوٹے بھائی بہن اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل کررہتے تھے،وہ جب چاہتے ان کی گود میں چڑھ جاتے اورجب چاہتے ان کے برہنہ پیٹ پر سر رکھ کر سو جاتے۔مگر رافع بڑا ہوگیا تھا ، وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا، اس کے لیے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ ان سے جسمانی دوریاں بنائے رکھے۔جس دن اس کا پہلا بھائی پیدا ہواتھا اسے اس کی ماں کے پہلو سے دور کردیا گیا تھا، کچھ دنوں بعد اس کا بستر بھی الگ کردیا گیا اور پھر بعد میں کمرہ بھی ۔اس کے وجود کی طرح اس کا کمرہ بھی سرد رہتا تھا،اس میں سناٹے دندناتے پھرتے تھے ۔ پہلے وہ اکیلا تھا تو ماں کی تمام محبتوں کا اکیلا وارث تھا اور اب وہ اکیلا نہیں رہا تھا تو ماں کی تمام محبتوں کا سزاوار نہیں ہوسکتا تھا۔ اسے لگتا کہ ماں کی محبتیں جیسے تقسیم کردی گئی ہیں۔

جب وہ تھوڑا اوربڑا ہوگیا ،یہی کوئی سولہ سترہ سال کا تو ایک دن ماں اس کے کمرے میں داخل ہوئیں ، انہیں رافع کی تنہائی ،کمرے کے سرد درو دیوار اور چہار جانب دندناتے پھررہے سناٹوں کا احساس ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ پلاسٹک کی چینی گڑیا فرش پر اوندھے منہ پڑی ہے اور ایک زمانے سے اس پر توجہ نہیں دی گئی ہے۔انہوں نے کلیم الدین سے اس بارے میں گفتگو کی اور دونوں نے رافع کے لئے گوشت پوست کی انسانی گڑیا لاکر دینے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ پلاسٹک کی گڑیا سے بہت زیادہ دنوں تک من نہیں بہلایا جاسکتا تھا۔

وقت اسی طرح گزرتا رہا یہاں تک کہ رافع اور سائشتہ کی گود میں یکے بعد دیگرے ایک گڈےاور ایک گڑیا نے آنکھیں کھولیں۔ اس وقت تک چھوٹے بھائی بہن تھوڑے اوربڑے ہوگئے تھے اور اس کے کام میں دخل دینے لگے بلکہ نکتہ چینیاں کرنے لگے تھے ۔ جب یہ نکتہ چینیاں حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ماں کے دل میں شک نے جگہ بنالی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ گھر کا غیر معتمد شخص قرار پایا اور رفتہ رفتہ وہ خود اپنے ہی گھر میں الگ تھلگ پڑگیا۔جن بھائی بہنوں کو اس نے اپنے خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے پالا پوسا اورپڑھالکھا کربڑا کیاتھا اور ان کے گھر بسائے تھے وہ سب اس کے لیے اجنبی ہوگئے ۔
وہ سناٹے جو سائشتہ کے وجود سے یک لخت کافور ہوگئے تھے ایک بار پھر سے اس کے وجود میں درآئے تھے۔ وہ اپنے ہی گھر میں الگ تھلگ پڑگیا تھا۔عین اس وقت جب گھرمیں بیٹیوں، دامادوں ،بہؤوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا ، مسرت آمیز ترانے گائے جاتے تھے وہ الگ تھلگ اور فکرمیں ڈوبا ہوا دکھائی دیتا تھا۔

بھائی صاحب کو تو لگتا ہے گھر کی بالکل بھی پروا نہیں،بس اپنے بیوی بچوں کی فکر ہے،انہیں تو بس کھانے کو اچھے سے اچھا کھانا اور پہننے کو اچھے سے اچھے کپڑے مل جائیں اور بس ،باقی سب کچھ جائے بھاڑ میں، منجھلے نے روٹی کا لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔۔ چپ جا اچھا۔ ماں نے اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کی،ارے ماں تمہیں کچھ نہیں پتہ، بینک بیلینس بنارہے ہیں، بینک بیلینس، چھوٹا بولنا نہیں چاہتا تھا مگر جب اس نے ماں کا بھولاپن دیکھا تو ابل پڑا۔اچھا کرنے دے جو کررہے ہیں، ماں نے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔میں نے بھابی سے سوروپے مانگے تو بھابی نے صاف منع کردیا، کہنے لگیں بہن میرے پاس تو ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہےاورپھرتھوڑی دیر بعد اکمل نے پچاس روپئے مانگے تو چپکے سے نکال کر دیدئے،ہم تو کچھ ہیں ہی نہیں ان کے ، ان کے لیے بس ان کے بچے ہی سب کچھ ہیں۔گلشن نے اپنے ہاتھ کی روٹی گرم توے پر ڈالی اور شروع ہوگئی ۔جب سب بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے تو وہ بھلا کیسے خاموش رہ سکتی تھی،اس کی خاموشی بھیا اور بھابی کی طرفداری کے ہم معنیٰ بھی سمجھی جاسکتی تھی۔
ان دونوں کی عدم موجودگی میں جب سب لوگ شام کے کھانے پر بیٹھتے تھے تو زیادہ تر وہی دونوں موضوع سخن ہوا کرتے تھے۔یہ ہردن ہی ہواکرتا تھا اور گھر کےہر حصے میں ہواکرتا تھا مگر کچن اس کے لیے زیادہ محفوظ جگہ سمجھی جاتی تھی ۔ جب ان میں سے کوئی اچانک ادھر آنکلتا یا اکمل کھیلتا کودتا آدھمکتاتو موضوع سخن تبدیل ہوجاتا۔کتنی بار کہاہے کہ سالن کم کھایا کر، پیٹ میں آگ ہوجائے گی آگ۔ ماں کو سب سے پہلے سن گن مل جاتی اور وہ قدرے زور سے بولنا شروع کردیتیں تاکہ سب آگاہ ہوجائیں۔ ماں کے پاس ایسے کئی جملے اور موضوع تھے جو خاص ایسے وقتوں کے لیے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ کرکے رکھے گئے تھے۔کبھی ماں سے چوک ہوجاتی اور وہ بروقت خبردار نہ ہو پاتیں تو بہن ماں کا کردار نبھایاکرتی تھی۔وہ زبردستی کھانستی اور موضوع بدل دیتی۔

بہت ساری باتیں چھن چھن کر اس کے کانوں تک پہونچتی تھیں۔پر وہ سنی ان سنی کردیتا تھا، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی وہ گھر کے ماحول کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ بھائیوں کے درمیان نا اتفاقیاں بہت زیادہ بڑھ جائیں ۔ اسے پتہ تھا کہ اس کے گاؤں کے کئی خاندان ایسی ہی چھوٹی موٹی نااتفاقیوں کی وجہ سے اجڑ گئے۔باوجود اس کے کہ اسے اپنے بھائیوں کی کئی طرح کی حرکتیں ناخوش کرتی تھیں اور اشتعال دلا تی تھیں ، خاص طورپر اسے یہ بالکل بھی پسند نہیں تھا کہ وہ سائشتہ کے ساتھ بہت زیادہ ہنسی مذاق کریں بطور خاص اس کی عدم موجودگی میں۔جب کریم الدین حیات تھے تو وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ان کی بہو کے تخلیہ میں کسی قسم کی دخل اندازی نہ ہو۔وہ سکینہ کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہتے تھے وہ کہتے تھے کہ جوان خون ہے اور زمانہ برا ہے۔
سائشتہ بھولی بھالی لڑکی تھی، ہر وقت گھر کے کام میں جٹی رہتی تھی، ساس، سسر کےعلاوہ دیور اور نندیں بھی ہر وقت اسے حکم دیتی رہتی تھیں ، بھابی ذرا میرے کپڑے دھودینا، بھابی ذراسی چائے ملے گی کیا،بھائی میرا یہ کام کردینا ، بھابی میرا وہ کام کردینا۔ وہ ان کی کسی بھی بات کا برانہیں مانتی تھی بلکہ خوشی خوشی سارے کام انجام دیتی تھی۔وہ بہت برداشت کرنے والی تھی کبھی کبھار تو بہت تلخ اور نازیبا باتیں اور حرکتیں بھی برداشت کرجاتی تھی۔وہ اپنی ، اپنے گھر والوں اور خاص کر رافع کی عزت ہر قیمت پر بچائے رکھنا چاہتی تھی۔کبھی کچھ شکایت بھی کرتی تو نہایت دبے لہجے میں اورڈھکے چھپے لفظوں میں کرتی تھی۔شادی کےقریبی سالوں میں اس نے رافع سے ایک دوبار کہا تھا آپ کے بھائی بڑے خراب ہیں۔مگر رافع نے الٹا اسی کو ڈانٹ پلائی تھ۔اس سلسلے میں ایک دو بار رافع کو غیر مستند خبریں بھی ملیں تھیں مگر اسے ایسی خبروں پر یقین ہی نہیں آتا تھا، اس نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کبھی بھی اس طرح نہیں سوچا تھا۔اس وجہ سے وہ کبھی بھی یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس کے جوبھائی بچپن میں اس کی کھانے پینے اورپہننے کھیلنے کی چیزیں شیئر کرتے تھے وہ جوانی کے دنوں میں اس کی دوسری کئی چیز بھی شیئر کرسکتے ہیں۔

ان دونوں نے یہ طے کیا تھا کہ وہ تیسرا بچہ اس وقت کریں گے جب اکمل اور روبی ہوشیار ہوجائیں گے، اس لیے وہ دونوں آپس میں دوریاں بنائے رکھتے تھے یا پھر انتظام سے رہتے تھے۔مگرایک بار جب وہ گھر میں بیٹھا اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک سائشتہ اندر سے نکل کر نل کی طرف بھاگی، اس نے اپنا منہ اپنے ہاتھ سے سختی کے ساتھ دبا رکھا تھا، اس نے اچانک سے آجانے والی الٹیوں کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر روک نہ سکی۔وہ نہیں چاہتی کہ رافع کو کچھ پتہ چلے ۔رافع نے جب یہ منظر دیکھا تو اسے اپنے پیروں تلے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔اور ایک لفظ بھی کہے بغیر گھر سے نکل گیا۔شاید کھیتوں کی طرف۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!