گرماؤ! غلاموں کا لہو سوزِ یقین سے۔۔۔
مفتی افسر علی نعیمی ندوی
اسلام کی سر بلندی کے لیے جس طرح مردوں نے اپنی جان ومال کی قربانیاں پیش کی ہیں اسی طرح خواتین ِ اسلام نے بھی خوشی خوشی اپنی جان و مال اور اولاد کو راہِ حق میں قربان کر دیا ہے۔ جنگِ احد میں جب رسول اللہ ﷺ دشمنوں کے نرغے میں تھے تو آپ ﷺ کے پاس حضرت ام عمارہ ؓ، طلحہ بن عبید اللہ ؓاور دیگر چند صحابہؓ تھے، جب ابن قمہ نے آپ ﷺ پر تلوار کا وار کیا تو حضرت ام عمارہؓ نے آگے برھ کر اپنے بازو پر اس کا وار روک لیا، اسی طرح برابر دشمنوں کے وار روکتی رہیں، حضور ﷺ نے ام عمارہ ؓکے بارے میں فرمایا کہ ”ما التفت یمیناً و شمالاً الا و انا اراھا تقاتل دونی“(طبقات الکبریٰ لابن سعد) (دائیں بائیں جس طرف میں نے رخ کیا ام عمارہ کو اپنی مدافعت میں لڑتے دیکھا) جنگ قادسیہ کے موقع پر حضرت خنساء اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ شریک تھی۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹوں کو جانبازی اور پا مردی کا ثبوت دینے پر ابھارا، ان کو یہ آیت سنا کر بر انگیختہ کیا کہ”اے ایمان والو! ثابت قدم رہو اور ثابت قدمی میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرو حق کی راہ میں جمے رہو اور اللہ سے ڈرو، شاید تم فلاح پاؤ۔“(آل عمران: 200)
جان دینے سے جھجکتے نہیں ارباب وفا
پیش جب مرحلہ دارو رسن ہوتا ہے
موجودہ حکومت کے حالیہ دو فیصلے ایک طلاق ثلاثہ بل کہ تین طلاق دینے پر طلاق واقع نہیں ہوگی لیکن شوہر کو تین سال کی سزا دی جائے گی اور سپرم کورٹ کا یہ فیصلہ کا تین طلاق دینے سے ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، یہ فیصلہ شریعت اسلامیہ کی بیخ کنی کا آغاز ہے، آئین ِ ہند کے بنیادی حقوق ”مذہبی آزادی“ کے سراسر خلاف ورزی ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس فیصلہ کے خلاف سپرم کورٹ میں اپیل کر نا چاہیے تھا کہ کورٹ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔(اس کی کیا مجبوری تھی کہ کورٹ میں اپیل نہیں کیا واللہ اعلم بالصواب) کیونکہ ایک مجلس یا ایک جملہ میں تین طلاق دینے سے ایک طلاق تو بلا اختلاف قرآن و سنت کی روشنی میں واقع ہو ہی جاتی ہے۔
اگر عورت حائضہ ہے تو تین حیض یا تین طہراور اگر آئسہ ہے تو تین مہینے کے اندر شوہر نے رجوع نہیں کیا تو تین مہینے کے بعد رشتہ نکاح خود بخود ختم ہو جا تا ہے۔ا س قانون کے مطابق تین سال کی سزا کے بعد شوہر اور بیوی ایک ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو یہ شرعی اعتبار سے زانی اور زانیہ کے گناہ کے مرتکب ہوں گے۔ایسی صورت ِ حال میں کوئی مسلمان اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق ہی نہ دے۔
اگر کسی جاہل گنوار نے طلاق دے بھی دیا تو مسلم خواتین پر یہ ذمہ داری عا ئد ہوتی ہے کہ وہ امہات المومنین، بنات طاہرات اور صحابیات کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں کہ انہوں نے اسلام کی بقا کے لیے اپنی جان و مال کو قربان کر دیا اوراپنی اولاد اور شوہر کی شہادت پر یہ کہا کہ ”ہر مصیبت آپؐ کے بعد ہیچ ہے۔“ لہذا خواتینِ اسلام اپنے تمام معاشرتی مسائل دار القضاء سے رجوع ہوکر ہی حل کریں۔
اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی مضمر ہے،ہر گز ہرگز عدالتوں کا رخ نہ کریں کیوں کہ عدالتوں میں انصاف کے لیے سالوں گزر جاتے ہیں لیکن انصاف بڑی مشکل ہی سے کسی کو ملتا ہے۔
بی جے پی کا MLAجب ایک لڑکی کا ریپ کرتا ہے اور شکایت کرنے پر اس لڑکی کے والد اور اس کے کنبے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ کی زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ وہ مسلم خواتین کو کیا انصاف دلا ئئ گا جو خود اپنی بیوی کو انصاف نہیں دے سکا۔
دوسرا بل 370اور 35Aکی منسوخی مسلمان دشمنی کا عملی طور پر آغاز ہے اور آئین ہند کا قتل ہے۔ آئین کی حفاظت کا حلف لینے والے ہی جب اس کا قتل کرنے لگے تو پھر ملک کا کیا حال ہوگا؟ یہ سارا کھیل ہندوتوا آیڈیا لوجی کے جد امجد ساورکر، گولوار کر اور عظیم دہشت گرد گوڈسے کی سوچ و فکر کی نمائندگی کر رہا ہے۔
بی جے پی والوں کے دلوں میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر نہ بھری ہوتی تو وہ ریاست کشمیرکی طرح منی پور، ناگا لینڈ، ہماچل پردیس اور دیگر ریاستوں کے خصوصی درجات کو ایک ساتھ ہی منسوخ کر دیتے۔
ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ریاست کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس کے ایک حصہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا گیا ہو، یہ دن ہندوستان کے لیے سب سے سیاہ دن تھا جب یہ فیصلہ کیا گیا۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہندوستان کو ترقی کی راہ پر لے جانا چاہتے تو بنگال، بہار، اتر پردیس اور دیگر ریاستیں جہاں 370اور 35Aنہیں ہے وہ ریاستیں کشمیر سے زیادہ پسماندہ کیوں ہوتی؟ کشمیریوں پر ظلم کا یہ عالم ہے کہ انہیں گھروں میں قید کر دیا گیا ہے، ان کو اپنے عزیز و اقارب اور دوسروں سے بات چیت کرنے پر ایسی پابندی عائد کی گئی کہ بات کرنے کی ساری سہولیات ہی مسدود کر گئیں۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسے ویڈیوز وائرل ہوئے ہیں کہ وہاں کی پولیس بیماروں کو ہسپتال لے جانے کی اجازت نامہ لینے کے باوجود ہسپتال نہیں جانے دے رہی ہے۔اس کی کوشش یہ ہے کہ یہ بیمار اپنے گھروں ہی میں مر جائے۔ مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمان ڈر کر رہے، اور حکومت کی نا انصافیوں اور ظلم و زیادتی پر زبان بھی نہ کھولیں، اگر زبان کھولیں گے تو انہیں دہشت گردی کے نام پر جیل کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا؛لیکن مسلمان ڈرنے والا نہیں ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
جب دہشت گردی کا ملزم اپنی زندگی کے پندہ پندہ بیس بیس سال جیلوں میں گزارلیتا ہے تب عدالت اسے بری قرار دیے رہی ہے۔ ایسے پولیس اور آفیسروں کو بھی سزا ملنی چاہیے تاکہ وہ بے گناہوں کی زندگیوں سے کھلواڑ نہ کریں اور رولنگ پارٹی کے اشاروں پہ کام نہ کریں بلکہ اپنا فرض ِ منصبی پورا کریں۔
آج گودی میڈیا حکومت کے اشاروں پہ کام کر رہی ہے اور حکومت کی انصافیوں اور ظلم کی داستان لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے بجائے، ظلم و زیادتی کو حق بجانب ثابت کرنے کی کوشش کر تی ہے، ظالموں کے جشن منانے کے ویڈیوز کو نشر کرتی ہے۔ جو حکومت کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے ہو اس کو حکومت ظلم کا شکار بنا رہی ہے۔
ایسے حالات میں دانشوران قوم و ملت اور سیکولر پارٹیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ فسطائی طاقتوں کے ظلم و ناانصافی کو طشت از بام کریں اور حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کریں۔ اس کے لیے جتنی کوششیں ہو سکتی ہیں اس کو کر گزریں۔
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امیدِ مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں