سچے آنسو
مراسلہ: ذوالقرنین احمد
“زینی آپا! شکر ہے آپ صبح ہی گھر سے نکل آئیں… ذرا بھی دیر ہوجاتی تو آج آپ کا آنا مشکل تھا۔ دیکھیں تو کتنی تیز بارش ہو رہی ہے۔” زیب نے تواتر سے برستی بارش کی طرف دیکھا اور الائچی والی خوشبو دار گرم گرم چائے کی ٹرے تپائی پر رکھ دی۔
کھڑکی کے شیشے پر پھسلتے ہوئے بارش کے قطرے بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ بارش جس تیزی سے برس رہی تھی بادل اتنے ہی خاموش تھے۔ بس چپ چاپ چھما چھم برسے چلے جا رہے تھے۔
“مجھے تو سمجھ نہیں آرہی یہ کیسی برسات ہے نہ بادل گرج رہے ہیں ناں بجلی کڑک رہی ہے….؟ ہے ناں آپا…؟” زیب ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
زینی آپا باہر لان میں نظر آتے ہرے بھرے درختوں اور پودوں کو دیکھ رہی تھیں۔ بارش کی بوندوں میں بھیگتا ہوا سبزہ کتنا بھلا لگ رہا تھا…. وہ اسی نظارے میں گم تھیں کہ زیب پھر بولی:
“زینی آپا! چائے لے لیجیے ٹھنڈی ہو جائے گی۔”
اور انھوں نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ پکڑ لیا۔ محبت سے بولیں “خوش رہو زیب! تمہارے ہاتھ کی چائے میں اکثر یاد کرتی ہوں” انھوں نے گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے آج کل؟
“ہممم، سب ٹھیک ہے آپا۔”
اچھا یہ بتائیے دوپہر کے کھانے میں کیا بناؤں آپ کے لیے؟”
” کچھ بھی پکا لو جو تمہیں آسان لگے۔” انھوں نے رسانیت سے کہا۔
زیب کچن میں گئی اور تھوڑی دیر بعد کریلوں کی ٹوکری اور چھری اٹھا کر لے آئی۔ قیمہ کریلے بنا رہی ہوں آپا! آپ کو اچھے لگتے ہیں ناں….
اس کے ساتھ ہی زیب نے موبائل اٹھایا اور برسات کے حوالے سے ایک گانا لگا دیا۔ خود بھی ساتھ ساتھ گنگنانے لگی۔
زینی آپا نے ایک دم سرزنش کی۔ “یہ کیا ہے زیب؟ تم گانے بھی سنتی ہو؟”
زیادہ تو نہیں سنتی آپا! بس کبھی کبھی موڈ ہو تو سن لیتی ہوں ۔ وہ لاپروائی سے بولی ۔
نہیں زیب! گانے مت سنا کرو میری بہن! یہ موسیقی اور گانا بجانا بہت بڑا عذاب ہے۔ یہ دل میں نفاق پیدا کر دیتا ہے۔ یہ عبادت کی لذت چھین لیتا ہے۔ یہ گمراہ کر دیتا ہے۔ اللہ کی محبت و قربت سے محروم کر دیتا ہے۔ بند کرو اسے پلیز…..
اور زیب نے یو ٹیوب سے گانا بند کر دیا۔
اچھا آپا! آپ ایک بار بتا رہی تھیں ناں آپ کو کسی زمانے میں گانے سننے کا بہت شوق تھا؟ پھر کیسے چھوٹی یہ عادت…؟
“چھوڑو بس… مدتیں گزر گئیں اب کیا کرو گی جان کر؟” زینی آپا عجیب بے چارگی سے بولیں۔
نہیں ناں آپا! بتائیے پلیز مجھے جاننا ہے۔
اور زینی آپا کہنے لگیں:
“ہاں شوق تو بہت تھا… گیارہ بارہ سال کی عمر میں ہی ریڈیو پہ گانے سننے کا چسکا پڑ گیا تھا۔ اسکول سے آتے ہی ریڈیو لگا دیا کرتی. پھر دوگھنٹے تک متواتر فرمائشی گانوں کا پروگرام چلتا رہتا اور میں گھر کے کام کرتی رہتی۔ پھر بابا نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے ٹیپ ریکارڈر لا دیا اور کچھ وقت تو ایسا گزرا کہ مجھے رات کو گانے سنے بغیر نیند بھی نہیں آتی تھی۔ میں دھیمی آواز میں کوئی کیسٹ لگا دیتی اور سنتے سنتے سو جاتی۔ اب تو مجھے یہ سب سوچ کر بھی خوف آتا ہے اگر ایسے حال میں، میں مر جاتی تو میرا کیا بنتا…؟
ہییییں….؟ یہ کب کی بات ہے آپا! میں کہاں تھی اس وقت؟ مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں۔ ہاں بس اتنا ضرور یاد ہے جب ایمن بوا اپنے بچوں کو ڈھونڈنے ہمارے گھر آیا کرتی تھیں اور کہتیں… “آئے دیکھنا زیبی! میرے بچے ٹی بی (ٹی وی) میں تو نہیں گھس گئے کہیں….؟”
ہاہاہا… کتنا مزا آتا تھا ناں آپا ان کے بھولے پن پہ۔ انھیں ہمیشہ یہی پریشانی رہتی تھی کہ یہ ٹی وی کے ڈبے میں اتنے سارے لوگ کیسے گھس جاتے ہیں اور کس وقت گھستے ہیں پتا ہی نہیں چلتا۔
جب بھی کبھی ان کے بچے کہیں ادھر ادھر ہوتے، انھیں یہی شبہ ہوتا کہ ٹی وی میں گھسے ہیں جا کر ۔
“ہاں بے چاری ایمن بوا…! بہت سیدھی سادی سی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اب تو انھیں اس دنیا سے گئے ہوئے بھی زمانہ گزر گیا۔”
اچھا زینی آپا! آپ بتائیں ناں کیا کہہ رہی تھیں؟ مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں۔ زیب ساتھ ساتھ کریلے بھی چھیلنے کاٹنے میں مصروف تھی۔
تم بہت چھوٹی تھیں زیب…! اب بچپن کی ساری باتیں تو یاد نہیں رہتیں ناں ۔
“گیارہ سے اٹھارہ، انیس سال تک کی عمر یونہی گنوا دی میں نے موسیقی کے راگ رنگ سنتے سنتے۔۔۔۔” وہ حسرت سے بولیں۔
پھر یہ عادت کیسے چھوٹی آپا جان…؟
بس جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ایک دن بھلائی کا بلاوا آیا تھا اور کوئی خوش قسمت گھڑی تھی جو میں اپنے رب سے جا ملی۔
ایک بڑے عالم دین ہمارے شہر آئے تھے اور ان کا وعظ تھا کسی جگہ… بھائی صاحب ہم سب کو بھی وہاں لے گئے۔ امی، میں اور تمہاری چھوٹی آپی۔
مجمع بہت زیادہ تھا اس لیے ہمیں الگ الگ جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔ میں گھر سے نکلی تو ایک دعا ضرور مانگی تھی “یا اللہ! مجھے ہدایت عطا فرما، میں نہیں جانتی کیا ٹھیک ہے کیا غلط… میں نے بس تجھ پر بھروسہ کیا۔ حسبنا اللہ.”
مولانا صاحب کا انداز بہت درد بھرا اور پر جوش تھا۔
مجھے آج تک یاد ہے ان کا وہ بیان خاص طور پر حیا کے موضوع پر خواتین کے لیے تھا۔
قرآن مجید میں مذکور حضرت مریم سلامٌ علیہا کا قصہ سنایا تھا.. کیسے ان کی حیا کا تذکرہ کیا تھا اور کیا انداز بیاں تھا… سبحان اللہ! کتنی عمدگی سے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کی شرم و حیا کو بیان کیا… مجھے لگا میں شرمندگی کے سمندر میں غرق ہوتی جارہی ہوں…. یہ ہوتی ہے مسلمان بیٹی، ایک حیا دار بیٹی… ایسی کہ قرآن اس کی شرم و حیا کی مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور میں کیا ہوں؟ میں نے اپنے گریبان میں جھانکا…. جسے رات دن گانے سننے سے ہی فرصت نہیں۔ جس نے کبھی اپنی زندگی کا مقصد ہی جاننے کی کوشش نہیں کی۔
وہ مسلمان لڑکی کی حیا پر اور بھی بہت کچھ کہتے رہے، اسلام کی نیک خواتین کا تذکرہ کرتے رہے.. حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے اللہ کے سلام بھیجنے کا قصہ سناتے رہے، حضرت آسیہ علیہا السلام کی کڑی آزمائشوں کا تذکرہ کرتے رہے۔ پھر ان کے لیے اللہ کی محبت بیان کرتے رہے… رب کی طرف سے ان پر کی گئی مہربانیوں کو بیان کرتے رہے۔ اور میرے لیے اپنے آنسوؤں پر بند باندھنا مشکل ہو رہا تھا۔
مجھے اپنا آپ کسی کچرے کے ڈھیر کی طرح لگ رہا تھا یا شاید اس سے بھی غلیظ اور بدتر ۔
یہ ہے اسلام اور ایسی ہوتی ہیں اسلام کی پاکباز باحیا بیٹیاں ۔
یہ ہیں میرے رب کی تعلیمات اور یہ ہے میرا رب جو صرف جنت دوزخ سے نہیں ڈراتا بلکہ اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔
شاید میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار جانا تھا کہ رب العالمین کو بھی اپنے بندوں سے پیار ہے۔ اس سے پہلے تو میں صرف اسے گویا انصاف کا ترازو سمجھتی تھی جو قیامت کے دن ہماری اچھائیاں برائیاں تول کر ہمارے لیے جنت اور جہنم کا فیصلہ کرے گا۔
مگر یہ کیسا تعارف تھا جو مولانا صاحب نے کروایا تھا…
مجھے میرے رب کی محبت کے احساس اور میرے گناہوں کی کڑھن نے ایسا رلایا تھا کہ وہ آنسو شاید میرے دامن کا ہر داغ دھو گئے… میں وہاں سے اٹھی تو میری کایا پلٹ چکی تھی ۔
موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
میں واپس پلٹی تو خود بھی سر تا پا بدل چکی تھی۔ میں نے اس دن اپنے آپ سے عہد کیا تھا اب کبھی ان بے ہودہ خرافات میں نہیں پڑوں گی۔ میں نے گانا سننا بالکل چھوڑ دیا، ایک دم سے بند کر دیا۔
نماز پوری پابندی سے پڑھنے لگی، نوافل ادا کرتی، قرآن کو ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھتی، دینی کتابوں کا مطالعہ کرتی، پردے میں استقامت کے لیے خوب دعائیں مانگا کرتی۔ ماں باپ اور گھر والوں کی بے لوث خدمت کرتی.. میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش کرتی جس سے میں اپنے رب کو زیادہ سے زیادہ راضی کر سکوں۔
“پھر کبھی آپ کا گانا سننے کو جی نہیں چاہا؟” زیب ہلکے سے بولی۔
دل تو کئی بار چاہا یہ نفس اور شیطان اتنی آسانی سے تو پیچھا نہیں چھوڑتے… کبھی اپنی پسند کے گانوں کی آواز کانوں میں پڑتی تو دل بے اختیار ادھر کو ہمکتا تھا مگر میں سختی سے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتی اور اللہ سے استقامت کی دعا کرنے لگتی۔
نفس کی خواہشوں کو چھوڑنا آسان نہیں زیب! بہت زور لگانا پڑتا ہے، بہت کڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے مگر اچھے اور سچے لوگوں کا ساتھ مل جائے جو آپ کو بھلائی کی طرف لے کر چلتے رہیں تو زندگی کا سفر آسان ہو جاتا ہے۔
آج موسیقی اور گانا بجانا بہت بری طرح سے ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے. کوئی چیز اس سے خالی نہیں، یہاں تک کہ بعض اوقات تو علماء کے وعظ و نصیحت کے ویڈیو بیانات میں بھی پس پردہ ہلکی موسیقی لگا دی جاتی ہے۔
یہ بہت بڑا گناہ ہے. اللہ کی نافرمانی ہے جسے ہم بہت ہلکا سمجھتے ہیں ۔
نافع مولیٰ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ساز بانسری کی آواز سنی تو انہوں نے اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے دیں اور راستہ بدل لیا، دور جاکر پوچھا : نافع! کیا آواز آرہی ہے؟ تو میں نے کہا : نہیں۔ تب انہوں نے انگلیاں نکال کر فرمایا کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، آپ نے ایسی ہی آواز سنی تھی اور آواز سن کر میری طرح آپ نے اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیں تھیں.” (احمد، ابوداود، ابن حبان)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح بتوں سے نفرت کا اظہار کرتے تھے، اسی طرح ساز باجوں سے بھی نفرت کرتے تھے۔ جس طرح بتوں کی پرستش حرام گردانتے تھے، اسی طرح ساز باجوں کو سننا بھی حرام قرار دیتے تھے جیسا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ
“مجھے اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ بتوں اور ساز باجوں کو مٹا ڈالوں.” (مسند احمد)
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:
“میں ساز باجے اور ڈھولک کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں.” (الفوائد)
ایسے ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“بلاشبہ اللہ نے شراب، جوا اور ڈھولک حرام فرمائے ہیں اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے.” (مسند احمد)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص کسی گلو کارہ کی مجلس میں بیٹھا اور اس نے گانا سنا، قیامت کے روز اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا.” (قرطبی)
جس طرح کسی گلوکارہ کے شو میں بیٹھ کر گانا سننا حرام ہے اسی طرح ریڈیو، ٹی وی، کیسٹوں اور موبائل کے ذریعہ گانا سننا بھی حرام ہے کیونکہ دونوں دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں۔
زینی آپا نے لگاتار کئی وعیدیں سنا دیں جو احادیث میں وارد ہوئی ہیں…. اور زیب اپنے آپ پر شرمندہ سُن سی بیٹھی رہ گئی۔
اور سوچنے لگی… کتنے بے حس ہیں ہم لوگ… اپنے اعمال کی خبر ہی نہیں لیتے۔ دن بھر کیا اچھا کیا، کیا برا کیا… کبھی تو اپنے اندر جھانک لیا کریں۔ بس زندگی لگی بندھی روٹین پر بھاگتی چلی جاتی ہے.. کسی کو فرصت نہیں اپنے اعمال کے سودو زیاں کا حساب لگائے ۔
زیب کچن میں کڑاہی کے اندر کریلے تلنے میں مصروف تھی مگر ساتھ ساتھ آنکھوں سے آنسو بھی بہہ رہے تھے اپنی نا اہلی اور کم علمی پر…. اپنی جہالت اور بے عملی پر….
مگر دل میں تہیہ کر چکی تھی آج کے بعد کبھی موسیقی اور گانے بجانے کی طرف دھیان نہیں دوں گی۔ میں بھی اسی راستے پر چلوں گی جو کامیابی کی طرف جاتا یے۔ اللہ تعالیٰ ضرور میری مدد کریں گے۔
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞
“اور انسان کو وہی کچھ عطا کیا جاتا ہے جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔”* (النجم 39)