مذہبیمضامین

قربانی کے جانوراور چندگزارشات

ابو خالد خان، کریم نگر

آج کل “واٹس اپ” پر ایک اپیل بہت زیادہ گردش کررہی ہے کہ بقرعید کے موقع پر چرم کو ضائع کردیں کیونکہ اس کی قیمت بہت کم کردی گئے ہے اور مدارس کو چرم نہ ملنے سے جو نقصان ہوگا اس کی تلافی کے لئے مدراس کو تعاون کے طور پر 100 ، 200 روپئے دے دیں ۔

اس ضمن میں چند گزارشات پیش خدمت ہے

مال میں تصرف کے حدود

انسان جس چیز کا مالک ہوتا ہے اس میں انسان کو تصرف کرنے کا اختیار ہے ۔تصرف فقہاء کی ایک اور اصطلاح ہے جو اکثر جگہ استعمال ہوتی ہے ۔تصرف کے اصل مانے تو ہے ڈسپوزل یا کاروائی ۔لیکن اس سے مراد اپنے مال میں اس کے جائز استعمال کا حق ہے ناجائز استعمال کا حق تصرف میں شامل نہیں ہے ۔اپنے مال کے بھی نہ جائز استعمال کا حق کسی کو نہیں ہے ۔کوئی اپنا مال جو وے میں استعمال کریں ۔کسی ناجائز سرگرمی میں استعمال کریں ۔اپنا مال مسلمانوں کے خلاف سازش میں استعمال کرے ۔یہ جائز نہیں ہوگا ۔جائز کام میں جائز طریقے سے جو اقدام بھی آپ اپنے مال کے سلسلے میں کریں وہ تصرف کہلاتا ہے ۔

تصرف کی پانچ شرائط ہیں ۔ان پانچ شرائط کے مطابق جب  تصرف  ہوگا وہ جائز ہوگا ۔جہاں ان پانچ شرائط میں سے کسی شرط کی خلاف ورزی ہوگی وہ تصرف جائز نہیں ہوگا ۔پہلی شرط یہ ہے کہ وہ تصرف حدود شریعت کے اندر ہو۔یہ ایک عمومی شرط ہے جس میں بقیہ شرائط بھی آجاتی ہیں ۔مزید وضاحت کے لئے ان کو الگ الگ بھی بیان کر دیا گیا ہے ۔دوسری شرط یہ ہے کہ مال کو زائع نہ کیا جائے ۔مال کو زائیع کرنے کی ممانعت کی دو حکمتیں ہیں۔ایک حکمت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مال انسانوں کی فلاح اور فائدے کے لئے اتارا ہے آپ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے ضائع کریں ۔دوسری حکمت یہ ہے کہ اصل مالک تو اللہ ہے ۔آپ تو امین ہیں ۔کوئی شخص اپنے باغ میں آپ کو متولی مقرر کردے اور آپ کو اجازت دے کہ آپ اپنی ضرورت کے مطابق کھایا بھی کرے ۔کھلایا کریں ۔لیکن آپ اس کے پھل توڑ توڑ کر نہر میں بہا دیں ۔کہ اس نے مجھے تصرف کی اجازت دی ہے ۔یہ حرکت جائز نہیں ہوگی ۔اس لیے کہ اصل مالک نے پھلوں کو جائز اور معقول استعمال کی اجازت دی تھی  اس نے ظائع  کرنے کی اجازت نہیں دی  تھی

اللہ تعالی نے بھی مال کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی ہے ۔حدیث میں آتا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم .نے اس حدیث میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے بلاوجہ فضول گوئی سے ۔بہت زیادہ مانگنے سے اور مال کو ضائع کرنے سے لہذا مال کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ محاضرات فقہ.صفہ.-275-.76.

”ہو اہلاک المال واضاعتہ وانفاقہ من غیر فائدة معتدبہا دینیة او دنیویة“۔

یعنی کسی دینی اور دنیوی قابل ذکر فائدہ کے بغیر مال کو تباہ وبرباد کرنا اور بے جا خرچ کرنا ”اسراف“ کہلاتا ہے۔

اسراف کی اقسام

۱…اسراف کی پہلی قسم یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے مال کو دانستہ طور پر سمندر میں یا کسی کنویں میں یا آگ میں ڈال کر تباہ کردیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے مال کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے یا توڑ کر رکھ دیتا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا ممکن نہیں رہتا ہے یا اپنے باغ کا پھل پکنے کے بعد درختوں سے نہیں اتارتا یا کھیتی کی تیار فصل نہیں سنبھالتا، یہاں تک کہ پھل سڑ کر خراب ہوجاتا ہے اور فصل تباہ ہوجاتی ہے یا اگر اس کا مال جانوروں اور غلاموں کی صورت میں ہے تو اس کو گھر میں نہیں رکھتا ہے، جانوروں کو چارہ نہیں کھلاتا ہے اور سخت سردی میں غلاموں کو کپڑے نہیں پہناتا ہے، یہاں تک کہ جانور بھوک سے اور غلام سردی سے مر جاتے ہیں، یہ سب اسراف کے ضمن میں آتا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوا کہ جو لوگ نوٹوں کے ساتھ ہاتھ صاف کرتے ہیں یا اس کو پھاڑدیتے ہیں یا کسی طرح جلا ڈالتے ہیں، ان کا یہ عمل اسراف میں داخل ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔

صالح عمل کے شروط

اللہ تعالی کااس آیت کریمہ میں فرمان

{ وہ لوگ جونیک اورصالح عمل کرتےہیں } الکہف ۔/(2)

اس فرمان کی مرادکودوسری آیات نےبیان کردیاہےجواس پردلالت کرتی ہیں کہ عمل صالح ہونےکےلئےتین امورکاہوناضروری ہے :

اول : وہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کےمطابق ہو ۔

توجوعمل بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےلائےہوئےطریقےکےمخالف ہووہ عمل صالح نہیں بلکہ وہ باطل ہے ۔

دوم : عمل کرنےوالااپنےعمل میں مخلص ہواوراسےصرف اللہ تعالی کےلئےہی کرے جوکہ اس کےاوراللہ تعالی کےدرمیان ہو ۔

اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ انہیں اس کےسواکوئی حکم ہی نہیں دیاگیاکہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کریں اسی کےلئےدین کوخالص رکھیں } البینۃ ۔/(5)

سوم : یہ کہ عمل عقیدہ صحیحہ اورایمان کی اساس پرمبنی ہو، کیونکہ عمل چھت کی طرح ہے اورعقیدہ بنیاد اوراساس ہے ۔

اللہ تبارک وتعالی کاارشاد ہے :

{ جوشخص نیک عمل کرے وہ مردہویاعورت لیکن باایمان ہو } النحل /(97)

تویہاں پرعمل کوایمان سے مقیدکیا ہے ۔

خام چمڑے کی عالمی قیمتوں میں کمی، کھالوں کے مقامی دام بھی گر گئے

عیدِ قربان نہ صرف ایک مذہبی تہوار ہے بلکہ ایک بڑی معاشی اور فلاحی سرگرمی کا دن بھی ہے۔ عید الاضحٰی کے لیے قربانی کے جانوروں کو بڑے پیمانے پر ملک کے دیہی علاقوں سے ملک کے دیگر بڑے شہروں میں لایا جاتا ہے اور بڑے پیمانے پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح اربوں روپے کا سرمایہ شہروں سے دیہی اور زرعی معاشرے میں منتقل ہوجاتا ہے۔ ملک بھر میں کتنی مالیت کے جانور فروخت ہوتے ہیں اس بارے میں کوئی قابلِ بھروسہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں البتہ قربانی کے بعد جمع ہونے والی کھالوں سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

عید پر قربانی کے بعد جانوروں کی کھالیں فلاحی اداروں کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ بنتی ہیں۔

کھالوں کی قیمت میں اس کمی کے باعث انہیں جمع کرنے والے فلاحی اداروں کے عطیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

چمڑہ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کے مطابق عالمی سطح پر چمڑے کی مصنوعات کی طلب میں کمی کی وجہ سے فنش لیدر کی طلب اور قیمت میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ عالمی منڈی کے اثرات مقامی مارکیٹ پر بھی غالب ہیں:

مارکیٹ ذرائع  کا کہنا تھا دنیا بھر میں خام لیدر کی قیمتیں گر گئی ہیں،ارجنٹائن گائے کا سب سے بڑا ملک ہے اور گائے کی کھال کی ایکسپورٹ کی پابندی تھی ارجنٹائن نے یہ پابندی اٹھا لی ہے کیونکہ انکا مال فروخت نہیں ہورہا تھا،پابندی ہٹنے سے کھالوں کی قیمتوں میں کمی آئی جبکہ عالمی سطح پر لیدر گارمنٹس کی بھی ڈیمانڈ نہیں ہے،امریکا، روس ،چین  اور یورپ سمیت ہر جگہ بحرانی کیفیت ہے

عالمی منڈی میں کساد بازاری، چین اور امریکا کی تجارتی لڑائی، اٹلی اور روس میں معاشی سست روی نے چمڑے کی عالمی مارکیٹ کو کریش کردیا ہے اور اس کے منفی اثرات عالمی سطح پر غالب ہیں

لیدر کی مصنوعات کو اس وقت چین میں بنے مصنوعی چمڑے سے مسابقت کا سامنا ہے۔ لیدر جیکٹ کی کم سے کم قیمت اگر 100 یورو ہے تو اس کے مقابلے میں مصنوعی لیدر کی جیکٹ 35 ڈالر میں دستیاب ہے۔ ابھی صارفین مصنوعی اور اصل چمڑے میں فرق نہیں کر پارہے ہیں تاہم یہ صورتحال بتدریج بہتر ہوسکتی ہے۔

اس کے علاوہ چمڑے سے بنی جیکٹس، پینٹس اور اوور کوٹس کی طلب میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور چمڑے سے بنی فیشن ایکسی سیریز (جس میں جوتے، پرس، ہینڈ بیگز اور دیگر اشیاء شامل ہیں) کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہےاپنی مالی مشکلات اوروسائل کی قلت اور نفع و نقصان کے پیش نظر اجتماعی اعمال کا تعین کرنا مناسب نہں ہے.

لہذا مناسب یہی ہے کہ کسی بھی تقاضہ پرگفتگو کرتے ہوئے اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا جائے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!