مذہبیمضامین

ساتھ میں تلوار رکھنا بھی سنت ہے

مفتی افسر علی نعیمی ندوی

ہندوستان کے حالات روز برو ز بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں، ملک کے مختلف حصو ں میں مسلمانوں کو زد وکوب کیا جا رہا ہے،کہیں زخمی تو کہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جا رہا ہے، ابھی تبریز کا زخم بھرا نہیں تھا کہ اناؤ میں مدرسہ کے معصوم طلبہ مدرسہ کے قریب میدان میں کرکٹ میچ کھیل رہے تھے کہ یکا یک بائک سوار میدان میں آ گئے اور ان سے جبرا ً ”جے شری رام“ کا نعرہ لگانے کے لیے کہا تو طلبہ نے نعرہ لگانے سے انکار کر دیا،تو ان کی زبر دست پٹائی کی گئی، جس میں سب سے زیادہ زخمی طالب علم عبد الوارث ہوا، حملہ کرنے والے آدت شکلہ کمل اور کرانتی سنگھ ہیں اور یہ بھاجپا کا پدادھی کاری ہے۔

اسی طرح تمل ناڈو میں محمد فیضان کو بیف کا سوپ پینے پر ہندو انتہا پسند وں نے ان پر حملہ کر دیا جس سے وہ سخت زخمی ہو گئے۔ ہمیں ہندوستان کے آئین کے مطابق اپنی حفاظت کے سامان پیدا کرنا ہوگا، آئین ہند چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ ہم تمہاری مدد کے لیے حاضر ہیں، میرے پاس تو آؤ؟ قانون سیلف ڈفنس کے تحت اپنی عزت و آبرو، جان و مال کی حفاظت کے لیے بندوق اور دیگر ہتھیار رکھ کر آڑے وقت میں اپنی حفاظت کر سکو۔

تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پڑوسی ملک نیپال میں آج سے تقریباً بیس سال پہلے ”ماؤں وادی“ نے باشندگان ِ نیپال پر ظلم و زیادتی کی تو وہاں کے لوگوں نے ایک نعرہ لگایا ”سونا بیچوں لوہا خریدو!“ ایسے حالات میں سونا چاندی، ہیرے جواہرات اور روپئے پیسے کسی کام کے نہیں ہیں، کیونکہ جان ہے تو جہان ہے، لہذا اپنی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ہر گھر میں لائسنسی بندوق اور دیگر ہتھیار رکھنا چاہیے، تاکہ دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے، وہ اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ اگر ہم نے کسی پر حملہ کیا تو ہماری جان بھی خطرہ سے خالی نہیں ہے۔

جب ہندوستان میں دلتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جان و مال خطرے میں ہیں، نام نہاد سیکولر پارٹیاں تماشائی بنی ہو ئی ہیں،ظالموں کو پشت پناہی حاصل ہے، ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ ﷺ اپنی تلوار کو درخت سے لٹکاکر آرام کرنے لگے اتنے میں ایک غیر مسلم آپ ﷺ کی تلوار اٹھا لیا اور کہنے لگا کہ اے محمد! اب تمہیں کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ اللہ، اتنا کہنا تھا کہ تلوار اس کی ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئی، آپ ﷺنے تلوار اٹھا لی اور کہا کہ اب بتا تم کو کون بچائے گا؟ اس نے معافی مانگی اور آپ نے اس کو معاف کر دیا۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار یا بندوق یا وہ دیگر ہتھیار جس سے اپنی جان کی حفاظت کی جا سکے اس کو اپنے پاس رکھنا سنت ہے۔

ساتھ میں تلواررکھنا بھی ہے سنت آپ کی
عالموں ان کو بتاؤ جانتا نہیں یہ ہر کوئی

مسلم نوجوانوں کو فزیکل فٹنس اور سیلف ڈفنس ٹرینگ کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت بھی کی جائے، جیساکہ جمیعت علماء ہند نے یوتھ کلب قائم کی ہے، اس طرز پر ہندوستان کے ہر ضلع میں کم از کم ایک کلب ہونا چاہیے تاکہ مسلم نوجوانوں کی اچھی تربیت کی جا سکے۔دانشوران قوم و ملت اور دینی و سیاسی تنظیموں کے ذمہ داران مسلکی اختلافات کو دور رکھ کر سر جوڑ کر موجودہ حالات میں مثبت اقدام کی طرف دھیان دینے کو اپنی ناگزیر ضرورت محسوس کریں۔
نہ سمجھو گےتومٹ جاؤگےاے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!