مختار عباس نقوی: آنکھوں والا اندھا!
محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی
ہندو انتہا پسند اور ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہجومی تشدد (Mob Lynchings) جنہیں اب ہم پولیٹیکل مرڈر یا پھر مسلمانوں کا جدید شکل میں انکاؤنٹر کرنا کہہ سکتے ہیں۔ جس کی بازگشت ہمارے ملک کی سرحدوں سے نکل کر اب عالمی سطح پر پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ملک اور بیرون ملک میں کیے جارہے ہیں۔ عالمی برادری اور ہر انصاف پسند برادران وطن (غیر مسلم) مسلمانوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہوکر ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہا ہے۔
ہمارے ملک میں حکمراں پارٹی کا ایک ایسا لیڈر بھی ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور وہ مسلمانوں کے مسائل کو سنگھی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس بہادر کا نام ہے مختار عباس نقوی جو مودی کی کابینہ میں اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر ہیں۔ انہوں نے ہجومی تشدد (پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں انکاؤنٹر)کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موب لینچگ کے زیادہ تر کیس من گھڑت اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موب لینچگ کے جتنے واقعات پورے ملک میں رونما ہورہے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سرخیوں کی زینت بن رہے ہیں وہ فرضی اور جھوٹے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے خلاف ملک و بیرون ملک احتجاج، دھرنے اور مظاہرے بےمعنی ہیں۔
بھاجپائیوں نے مختار عباس نقوی کو یونہی داماد نہیں بنایا ہے انہیں حق وفاداری بھی تو ادا کرنا ہے اور اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور ان کا حالیہ بیان بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہتے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے مختار عباس نقوی وشو ہندو پریشد کے صدر رہے مرحوم اشوک سنگھل کے داماد ہیں ان کی بیٹی سیما سنگھل کے شوہر ہیں۔
پوری دُنیا میں ہجومی تشدد (موب لینچگ پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں کا انکاؤنٹر)کا شور بپا ہے اور جس کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند ہورہی ہے اور ہر شخص اپنی سر کی آنکھوں سے اس ظلم وتشدد کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دن کے اجالے میں بھی ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں انجام پانے والے ہجومی تشدد کے ذریعے کے مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات انہیں اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس پس منظر ان کے تعلق سے یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ”اگر ہمارے ملک میں آنکھوں والے اندھے کو دیکھنا ہے تو وہ مختار عباس نقوی کو دیکھ لے۔”