بحث مت کیجئے۔۔۔ بحث کا نہ تو کوئی اختتامیہ ہے اور نہ ہی کوئی نتیجہ
ابوفہد
میں نے بڑی نادانی اور خرابی کے بعد یہ بات جانی ہے کہ کبھی بھی اور کسی سے بھی بحث نہیں کرنی چاہیے۔ خاص کر ان لوگوں سے بالکل بھی بحث نہیں کرنا چاہیے جن سے ہم محبت کرنا چاہتے ہیں اور جن سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہم سے محبت کریں اور ہمیشہ کے لیے کریں ، کیونکہ بحث محبتوں کی قاطع ہے اوررقابتوں کی جنم داتا ہے۔ بحث اپنے والدین، اپنے بہن بھائیوں سے، اپنے رشتہ داروں سے ، اپنے چھوٹوں سے اور اپنے بڑوں سے ، اپنے اساتذہ سے اور اپنے قریبی دوستوں سے بالکل بھی نہیں کرنی چاہیے۔کیونکہ بحث ہمدردی کے جذبات کو ختم کردیتی ہے اور عداوت کے جذبات کو ابھار دیتی ہے۔
ایک ملازم اگر اپنے باس سے بات بے بات بحث کرنے لگے ، ترکی بہ ترکی جواب دینے لگے، تو یقینی طور پر ایسا ہوگا کہ باس کے دل میں اس ملازم کے خلاف کم از کم ہمدردی کا جذبہ ختم ہوجائے گا۔اور وہ اپنے ہمدردانہ جذبات اور نرم وملائم مزاج کے باوجود ایسے ملازم کےحق میں مدد اورخیر خواہی کے لیے کچھ بھی آمادگی نہیں پائے گا۔ ملاز م اور باس کی بات تو بہت دور کی ہے، آپ نے اپنے گھروں اور محلوں میں دیکھا ہوگا کہ جو بچے اپنے والدین سے زبان لڑاتے ہیں اور بات بے بات بحث کرتے ہیں وہ اپنے والدین کے دلوں میں اپنے لیے نفرت جگا تے ہیں۔جبکہ دوسرے بچے جو محبت اور خدمت کے ذریعہ آگے بڑھتے ہیں وہ والدین کے نور نظر رہتے ہیں۔لڑکیاں عموما اپنے اسی غیر نزاعی مزاج کے باعث گھر بھر کی نورنظر ٹہر جاتی ہیں اور لڑکے اپنے اسی بحث وتکرار والے مزاج کے باعث کھوٹے ثابت ہوجاتے ہیں ۔اور جو اصول ایک گھر کے ماحول میں کارگر ہے وہ گھر سے باہر کی دنیا میں بھی اسی طرح کارگر ہے، کیونکہ نفسیات تو دونوں جگہ ایک ہی جیسی ہیں اور انسان اپنے جن فطری اور عادی خواص کے ساتھ آپ کے گھر میں موجود ہیں گھر کے باہر والے انسان بھی وہی سب فطری اور عادی خواص رکھتے ہیں۔ مگر درست بات یہ بھی ہے کہ اب گھروں کے نقشے بدل رہے ہیں اور بچے جارحانہ مزاج لیے پیدا ہورہے ہیں یا پھر ان کی تعلیم انہیں ایسا سکھا رہی ہے۔
بحث کئی طرح کی ہوتی ہے، کبھی نئے پرانے خیالات کی ہوتی ہے، کبھی عقائد وافکار کی ہوتی ہے۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دو بھائیوں میں نظریات کا فرق آجاتا ہے، ایک کا رجحان دینی ہوتا ہے اور دوسرا کسی قدر رند مشرب ہوتا ہے ، ماں اپنے خیالات میں زیادہ مذہبی ہوتی ہے، جو کئی بار محض عمر کے تقاضے کی وجہ سے ہوتی ہے اور بیٹی کسی قدر آزاد خیال ہوتی ہے اور کئی بار یہ آزاد خیالی بھی عمر کے تقاضے اور ماحول کے اثر سے ہوتی ہے۔ اور جیسے ہی یہ دونوں عوارض ختم ہوتے ہیں آزادخیالی کی جگہ خود بخو دمذہبیت کا گہرا رنگ آزادخیال لڑکی کے دل ودماغ سے لےکر اس کے نین ونقو ش تک چڑھ جاتا ہے ۔ مگر تب تک وہ بڑی ہوچکی ہوتی ہے اور اسی نوعیت کی بحث وتکرار اس کے اپنے بچوں کے ساتھ شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ کل تک وہ آزاد خیال تھی اور اس کی ماں قدیم ماحول کی پردہ اور آج وہ قدامت پسند ہے اور اس کے اپنے بچے آزاد خیال ، اس واضح فرق کے ساتھ کہ جارحیت کی شدت بھی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ گئی ہے۔
آزادخیالی اور قدامت پسندی کےحوالے سے والدین اور اولاد میں اکثرنوک جھونک ہوتی رہتی ہے۔ مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے ، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ برسہا برس تک بحث وتکرار او رنوک جھونک آپس کی محبتوں کو قتل کردیتی ہے۔ نہ بچے اپنے آپ کو بدل پاتے ہیں اور نہ ہی والدین خود کو بدل پاتے ہیں البتہ ایک دوسرے کو بدلنے اور سمجھانے کی کوشش میں محبتوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ جن سے ہم محبتیں چاہتے ہیں، محبتیں پانا چاہتے ہیں اور محبتیں دینا چاہتے ہیں ، ان کے ساتھ مباحثہ کرنے سے گریز کریں ۔ خیالات میں لاکھ فرق سہی اور افکار میں ہزار وں اختلافات سہی، ان سے جب بھی معاملہ کیا جائے ہمیشہ محبتوں کی بنیاد پر کیا جائے۔ تسلیم کریں کہ آپ کے استاذ مذہبی خیالات کے ہیں یا کسی جماعت یا پارٹی سے وابستہ ہیں اور اکثر اس جماعت یا پارٹی کے تعلق سے آپ سے بات کرتے ہیں جن میں کئی ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جو آپ کو اپنے آزادمنش ذہنیت کی وجہ سے بالکل بھی پسند نہیں تو آپ کے لئے یہی بہتر ہے کہ آپ انہیں بولنے دیں اور ان سے نہ الجھیں، سمجھانے کی کوشش نہ کریں ،اگر ان سے آپ ہمیشہ کے لیے محبت کرنا چاہتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح اس کے برعکس اگر آپ خود استاد ہیں اور آپ کا کوئی شاگرد مان لیں کسی دوسرے مسلک کا ہےیا کسی جماعت سے وابستہ ہے تب بھی یہی رویہ زیادہ بہتر ہے کہ ایک حد تک اسے صحیح اور غلط کے تعلق سے ضرور بتائیں مگر بات کو کبھی بھی بحث ومباحثے تک نہ جانے دیں۔
البتہ یہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بحث ومباحثہ ہر جگہ اور ہر حال میں غلط نہیں ہوتا ۔خصوصا جب یہ مباحثہ ایک سے زائد رائے معلوم کرنے کے لئے ہو اور بہتر سے بہتر رائے تک پہنچے کی تگ ودو کے نتیجے میں ہو۔یقینا بحث وتکرار سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور پختگی آتی ہے مگر اس کے بھی حدود ہیں اور آداب ہیں۔بیشک اس سے بہتر کوئی بات نہیں کہ ہر بات کو اور ہر چیز کو اس کی اپنی حدود کے اندر رکھا جائے۔تجاوزات ہمیشہ ہی مسائل پیدا کرتے ہیں، مگر یہ کہ کئی لوگ اپنے تجاوزات کےبارے میں اس وقت جان پاتے ہیں جب بہت دیر ہوچکی ہوتی۔جیسے خود میں نے ہی جو یہ بات جانی ہےبڑی نادانیوں اور خرابیوں کے بعد جانی ہے۔