سماجیمضامین

انصاف اگر سڑکوں پر ہی کرنا ہے، تو پھرعدالت کس لیے!

ذوالقرنین

جانوروں کی تسکری کے شک میں بنیا پور تھانہ نندلال ٹولا چھپرا بہار میں کل رات تین لوگوں کو تین لوگوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا۔ دو کی لاش پہنچی ایک اسپتال پہنچا کچھ دیر بعد اسکی بھی موت واقع ہوگئی۔

مرنے والوں میں ایک مسلمان دو دلت ہیں۔ جانکاری کے مطابق وہ جانوروں کو لےکر جارہے تھے۔ ان سے جانور کے پیپر مانگے گئے پھر پیٹ پیٹ کر مار دیا گیا۔ مرنے والے لڑکے پیغمبر پور گاؤں کے ہے۔ پولس معاملے میں ٹال مٹول کر رہی ہے۔ شناخت نہیں بتا رہی ہے۔ بھیڑ کے زریعے ہر روز دل دہلا دینے والے واقعات رونما ہورہے ہیں لیکن سرکار اس‌ معاملے میں دلچسپی نہیں لی رہی ہے۔

تبریز انصاری کے قتل کے بعد سے پوری دنیا میں ماب لنچنگ کی وجہ ملک کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں اس معاملے کو اٹھایا گیا لیکن بی جے پی حکومت اپنی مسلم دشمنی پر بضد دیکھائی دے رہی ہے۔ حکومت کو ہوش میں آجانا چاہیے ورنہ حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ ملک پہلے ہی غربت کے دور سے گزر رہا ہے۔

مقپول کے گھر والوں کے ا‌نصاف مانگنے پر پولس نے لاٹھیاں برسائی۔ سنگھی عناصر کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ ڈاکومنٹس چیک کریں، یا کسی کو بھی شک کی بنیاد پر قتل کردیں، تو عدالتیں، قانون، پولس، کس لیے ہے۔
سب سے پہلے تو پولس ڈیپارٹمنٹ کو ایسے افراد کیخلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے جو قانون کو ہاتھ مین لے رہے ہیں۔ حکومت کو اسکے خلاف قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی بے وجہ کسی بےگناہ کی جان لیتا ہے تو ایسے مجرموں کو جان کے بدلے جان کی سزا دینی چاہیے۔

اگر حکومت اس معاملے پرسنجیدگی غور نہیں کرتی ہے اور اسکے خلاف سخت قانون سازی نہیں کرتی ہے۔ تو ملک کے حالات بگڑنے میں حکومت اسکی ذمہ دار ہونگی۔ اگر ان بے گناہوں کی جگہ کسی بڑے لیڈر یا سرکاری افسر کے جوان بیٹے کا قتل کیا جاتا تو اسکی سی بی آئی انکوائری کی جاتی ہے۔ کسی سلیبرٹی، ماڈل ، یا فن کر کا قتل ہوتا ہے تو اسکی گہری جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اور مجرم کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے۔

لیکن یہاں پر ہجومی تشدد میں مرنے والے ایک تو مسلمان ہے یا پھر دلت ہے۔ یہاں میں حکومت سے اور عدلیہ سے سوال کرتا ہوں کے انسان کی جان کی قیمت میں امیر و غیرب میں فرق کیوں کیا جاتا ہے۔ کسی غریب بچی کے ساتھ عصمت دری ہوتی ہے تو اس معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی بڑا آدمی ہو تو کیس کی پیروی کی جاتی ہے۔

یہ دوہرا معیار کیوں؟

جبکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے۔ اور ہر بھارتی شہری کا اس ملک پر برابر کا حق ہے۔ پھر کیوں حکومت مذہب اور غربت کے معیار پر تنگ نظر روایہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب بھی اگر ایسے واقعات پر قابو نہیں پایا گیا تو ملک خانہ جنگی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس لیے حکومت اس جانب توجہ دیں اور پولس محکمہ اتنا ایکٹوں کردیا جائے کے وہ ایسے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دلانے میں کوئی کثر نہ چھوڑے انسانیت کے ناطے اور بھارتی قانون کے مطابق تمام شہریوں کے ساتھ انصاف کا برابری کا معاملہ کریں۔ قانون سب کیلئے ایک ہے چاہے ملک کا مزدور ہو یا ملک کا وزیر اعظم ہو قانون میں لچک نہیں ہے۔

جس‌ ملک کا نظام حکومت فرسودہ ہوجائے، اور عوام کے دلوں میں قانون و ایوانوں کا احترام صرف ظاہری تو پر ہو قانون کا ڈر و خوف ختم ہوجائے۔ انصاف جہاں پر بکنے لگے۔ قانون کو جہاں پر خریدا جانے لگے۔ تو وہاں کی عوام کے باغی ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!