اب پھر وہی نصاب تعلیم کی بات!
ابوفہد
مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی چاہنے والے علماء وغیر علماء مدارس کے نصاب میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو اس کی جامعیت کی طرف نکل جاتے ہیں، یعنی وہ چاہتے ہیں کہ نصاب میں رطب ویابس سب کچھ بھر دیا جائے، اور آپ جانتے ہیں کہ نصاب کی محض تضخیم کچھ فائدہ دینے والی نہیں ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ نصاب میں تبدیلی چاہنے والے تبدیلی کی بات کرتے وقت ابتدائی سالوں میں عموم اور پھرانتہائی سالوں میں اختصاص کی طرف آتے۔ زیادہ بہتر یہ ہوتا کہ وہ یہ کہتے کہ مدارس کے نصاب کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے، پہلے حصے میں عصری علوم وفنون زیادہ سے زیادہ ہوں اور اسلامی علوم وفنون کم سے کم اور دوسرے حصے میں عصری علوم وفنون کم سے کم ہوں اوراسلامی علوم وفنون زیادہ سے زیادہ ۔
نصاب کا پہلا حصہ جو پری نرسری اور نرسری سے شروع ہوتا ہے اس میں ابتداہی سے یا پھر پہلے درجے سے ہی کم از کم تین چار زبانیں سیکھنے پر بھی پوری توجہ دی جائے۔ اس کا نصاب عصری اسکول کے نصاب سے ملتا جلتا ہو،وہی سب سبجیکٹ ہوں، وہی نظم ہو اور وہی طریقہ ٔ تدریس ہو، اس کا دورانیہ گیارہ بارہ سال کا ہو۔ اور جب تک طالب علم چودہ پندرہ سال کی عمر کو پہنچے یہ دورانیہ مکمل کرلے،اس دورانئے کو مکمل کرنے والے طالب علم کو انٹر کے مساوی عالمیت کی ڈگری دی جائے۔
اور دوسرے حصے کا دورانیہ بھی تقریبا اسی کے مساوی ہو اور طالب علم پچیس چھبیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے یہ دورانیہ بھی مکمل کرلے۔ یہ دورانیہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سے شروع ہوکر فضیلت، ایم فل اور پی ایچ ڈی تک جائے۔ اس میں کلیدی مضمون قرآن کریم ہو اور باقی مضامین اختصاص کے مطابق۔ آخرکی دو ڈگریاں ایم فل اور پی ایچ ڈی عصری جامعات کے شعبہ اسلامیات سے بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔
ایک قابل قدر بات یہ بھی ہے کہ نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم اور طریقہ تعلیم بھی عمدہ ہونا چاہئے، ورنہ محض نصاب کی تبدیلی کچھ خاص رنگ و آہنگ نہیں لا پائے گی۔ اس نصاب کی تعلیم کے پہلے مرحلے میں بچے ہاسٹل میں قیام کرنے کے بجائے اپنے گھروں سے آنا جانا کریں مگر اس کے لیے یہ بھی ضروری ہوگا کہ ہرشہر اور قصبے میں مکاتب کی سطح کے اچھے مدرسے ہوں اور ٹرانسپورٹ کا بہتر نظم ہو۔ پھر دوسرے مرحلے کی تعلیم کے لئے وہ بڑے مدارس کا رخ کریں۔
چھوٹے بچوں کو یعنی پانچ سال سے پندرہ سولہ سال کی عمر کے بچوں کو ہاسٹل میں بالکل بھی نہ رکھا جائے۔ اگر محلے میں یا بستی میں کوئی اچھا مدرسہ ہو تو والدین دورکے مدرسے میں بھیجنے کے بجائے انہی قریب کے مدرسوں میں بھیجیں کہ روز آجا سکیں۔ اگر محلے میں یا بستی میں کوئی مدرسہ نہ ہو تو بچوں کوایسے اسکول میں داخل کریں جن میں اسلامیات کا بھی ایک پیڑیڈ ہو اور ان میں بچوں کو اسلامی ماحول فراہم ہو، جہاں انہیں کم از کم قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا ہو اورنمازوغیرہ بھی سکھائی جاتی ہو۔ اورمدارس کے نصاب کی چند اہم کتابیں خاص کر عربی زبان سیکھانے کا گھر پر ہی نظم کریں، خود پڑھائیں یا پھر ٹوئیٹررکھ لیں۔ اور پھرآٹھویں یا انٹر کے بعد اصلاح، فلاح، اشرفیہ، ندوۃ یا دیوبند وغیرہ جہاں چاہیں بھیج دیں اگرعالم دین ہی بنانا چاہتے ہیں تو۔اور پھر عالمیت وفضیلت کے بعد پی ایچ ڈٰی کے پھر عصری جامعات کے دروازے تو کھلے ہی ہیں۔
مدارس کے نظام تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ تعلیم کے ابتدائی مراحل پر محنت اور توجہ کم ہے اورانتہائی مراحل پر توجہ زیادہ ہے۔ بلکہ انتہائی مراحل کے بعد بھی دسیوں طرح کے کورسس اور پروگرام ہیں۔ دعوت وتبلیغ، تصنیف وتالیف اورکمپیوٹر و ترجمہ نگاری کے میدان میں فارغ التحصیل طلبہ کے لیے کئی پروگرام متعارف کرائے گئے ہیں اور پورے ملک میں کرائے گئے ہیں۔ تعلیم کے انتہائی مراحل اور اس کے بعد بھی ایسی کوششوں کے فوائد سے انکار نہیں لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ابتدائی مراحل کی تعلیم کا نظام مربوط اور مضبوط نہیں ہے۔ بہت سارے بچے تو محض حفظ کرتے کرتے ہیں پندرہ اٹھارہ سال کے ہوجاتے ہیں، ایسے بچے عالمیت وفضیلت کی تعلیم کس طرح مکمل کرسکتے ہیں۔ تو ابتدائی مراحل میں تبدیلی اورتوجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔
یہ بہت مخٰتصرسا خاکہ ہے اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں اوراپنے بچوں کو مستقبل کا قائد بنانا چاہتے ہیں تو اس طرز کی تبدیلی ضروری ہے، ورنہ محض جزوی تبدیلی سے اور تبدیلی کی بات کرلینے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔