سماجیمضامین

محبت کے قافلے۔۔۔

محمد انور حسین، اودگیر

سارے ملک میں لنچنگ کے واقعات نے مسلمانوں میں خوف و ہراس اور اشتعال کی فضا پھیلادی ہے ۔ان حالات میں ردعمل تو ہونا ہی تھا ۔حسب روایت مسلمان دھرنا، مارچ اور میمورنڈم کے ذریعے اپنے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہے ۔دوسری طرف لنچنگ کے واقعات تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ۔غصہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔سب اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد تجاویز پیش کر رہے ہیں ۔بیشتر لوگ مسئلہ کا حل مشتعل ہوکر سوچ رہے ہیں اور بعض صبر کے ساتھ اور بعض مایوس اور خوفزدگی کے عالم میں ۔۔

اصل میں اتنی شدید نفرت اچانک پیدا نہیں ہوتی۔ یہ برسوں کی کوشش کے ذریعے پیدا کی گئی نفرت ہے ۔اس کا حل کسی طرح بھی شارٹ کٹ میں نکالا نہیں جا سکتا ۔اس کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر طے کرنا پڑے گا ۔احتجاج اور حکومت پر قانونی چارہ جوئی کے لیے دباؤ بنانے سے قطعی انکا ر نہیں ہے ۔لیکن یہ مسئلہ کا مکمل حل نہیں ہے ۔

جتنے قافلے احتجاج میں نکلےاور جتنے غم و غصہ کا اظہار ان احتجاجی جلسوں میں کیا جارہا ہے ۔اگر اس کا کچھ حصہ بھی اگر ہم محبت کے قافلے لے کر نکلیں، اسلام کا پیغام امن لے کر نکلیں ۔ہر شہر اور ہر قریہ میں مسلمانوں کی اتنی ہی تعداد اگر برادران وطن کے پاس اپنا پیغام لے کر جاے اور بار بار جاے، ہزار بار جاے تو بعید نہیں کے کچھ حالات بدل جاییں ۔

ان واقعات میں اس ملک کا نوجوان طبقہ پیش پیش ہے ۔جو بے روزگاری سے بری طرح متاثر ہے ۔ملک کا معاشی مسئلہ بھی ہمارا مسئلہ ہے اس کا حل بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔کیوں نہ مسلمان اس قابل بن جاییں کہ نہ صرف وہ اپنے معاشی مسایل حل کرنے میں کامیاب ہوں بلکہ اس ملک کے سیکڑوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کر پایں ۔یقیناً یہ سوچ کسی بڑبولے کی بڑ نظر آئے لیکن ملک کا سنجیدہ اور دانشور طبقہ یہی سوچتا ہے ۔۔

کسی بھی قوم کو بہت زیادہ دنوں تک مشتعل نہیں رکھا جاسکتاہے ۔آج اسلام اور مسلمان دشمنی کے نام پر ایک قوم کو ہمیشہ مشتعل رکھنے کی جو کوشش کی جارہی ہے وہ ایک غیر فطری عمل ہے ۔۔فرد ہو یا قوم وہ اپنی فطرت پر بہت جلد لوٹ آتا ہے ۔

قومیں صرف اتحاد کا مظاہرہ کرنے سے کامیاب نہیں ہوتی بلکہ متحد ہونے سے کامیاب ہوتی ہیں ۔مظاہروں میں نعرے مارنے والے لوگ اگر مسجدیں بھی آباد کرنے لگیں تو اسلام کی اجتماعی زندگی کی برکتیں معاشرے میں نمایاں ہونے لگیں گی ۔سجدوں کے سوز سے دلوں میں گداز پیدا ہوگا ۔ہر انسان جو جہنم کی طرف دوڑا چلا جارہا ہے اسے پکڑ کر بچانے کی جستجو ہمارے اندر پیدا ہوگی ۔

حالات جب نازک ہوجاتے ہیں دشمن سر اٹھاتا ہے تو ہمارے لیے رہنمائی نام نہاد رہنماؤں کے پاس نہیں ملے گی بلکہ رہنمائی قران و حدیث میں ملے گی ۔مظاہروں میں شریک ہونے والوں کے خلوص کا احترام کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنھوں نے اپنے تعلق کو قران اور سیرت رسول کریم صلی الله عليه وسلم سے جوڑا ہے ۔کیا یہ نازک حالات ہمیں خدا کی طرف لپکنے کی دعوت نہیں دیتے؟

ہماری تصویر کو اس قدر مسخ کیا گیا ہے کہ ہمیں راکشس بنادیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ رات کو سکون سے سونا ہے تو راکشس کو ختم کرنا پڑے گا ۔یہ کیفیت بہادری کی نہیں بلکہ خوف کی نفسیات کا اظہار ہے ۔لیکن ہم نے خود بھی اپنے دامن پر بہت سے داغ چڑھالیے ہیں، مدت ہوئی ہے کہ ہم نے آیینے میں اپنی تصویر ہی نہیں دیکھی ۔ہمیں خود پتا نہیں ہے کہ ہماری تصویر کیسی ہے ۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنی تصویر دیکھیں داغ اور دھبوّں کو دھونے کی کوشش کریں، نیا لباس زیب تن کریں، مسلکی تعصب، شدت پسندی، گروہ بندی، انتشار، خدا سے غفلت، بے عملی اور بے علمی نے ہمارے چہرے پر بدنما گڑھے پیدا کردیے ہیں اور ان قباصتوں سے ہمارا پورا وجود بدبو دار ہوگیا ہے ۔کوئی ہماری تصویر دیکھنا نہیں چاہ رہا ہے ۔

کیوں نہ ہم اپنی تصویر کو درست کریں داغ دھبے مٹاییں، آیینہ میں اپنے آپ کو دیکھنے کا معمول بناییں تو کچھ ہی دنوں میں ہمارا پر نور چہرہ نمایاں ہونے لگے گا ۔ہم قابل دید بن جاییں گے اور یہ فطرت ہے کہ انسان خوبصورت چیزوں کو بار بار دیکھتا ہے دیکھتا رہتا ہے اس کی تقلید کرنے لگتا ہے اس سے محبت کرنے لگتا ہے اس کے لیے دیوانہ ہوجاتا ہے ۔

اس ملک میں ہمارا مستقبل مانگنے سے نہیں بلکہ صرف اور صرف دینے سے سنورنے والا ہے۔

بے روزگاری، بھوک مری، عورتوں کے مسائل، دلتوں کے مسائل، ادیواسیوں کے مسایل، معاشی مسایل، روحانی اور نفسیاتی مسایل، غرض زندگی کے تمام مسایل اگر ہمارے ذریعے حل ہونے لگیں تو نفرت محبت میں بدل جائے گی ۔رسولؐ پاک کی دعوتی تڑپ کا عشرعشیر بھی ہم میں آجاے تو بعید نہیں کے یہ گلستان وہ گلستاں بن جائے جہاں سے میر عرب کو ٹھنڈی ہوا آیی تھی ۔
انور حسین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!