مذہبیمضامین

زندگی اوراعمال کو قرآن سے ہم آہنگ کریں

از: مطلب مرزا

قرآن کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ انسان کو پختہ فکر دینے کے ساتھ ساتھ عملِ پیہم کی دعوت دیتا ہے, انسان کو عمل پر ابھارتا ہے بلکہ قرآن نے انسان کے عمل کو ہی جزا اور سزا کے لئے معیار بتایا ہے-

أَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ – وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ – وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ – ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ
” کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ اور یہ کہ انسان کو (آخرت میں) وہی ملے گا جو اُس نے (دنیا میں) کمایا ہے۔ اور یہ کہ جو کچھ اُس نے کمایا ہے، وہ عنقریب دیکھا جائے گا۔ پھر اُس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا”

اسی طرح قرآن میں ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ بار بار کیا گیا ہے اور آخرت میں کامیابی کے لئے اسے کسوٹی بنایا ہے

وَالْعَصْرِ
إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
“زمانہ گواہی دیتا ہے۔ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور (حق پر) ثابت قدمی کی نصیحت کی”

قرآن نے مختلف مقامات پر میدان محشر کی منظر کشی کی ہے اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہاں اگر کوئی چیز انسان کے لئے سکون و اطمینان کا سبب ہو سکتی ہے تو وہ انسان کے اعمال ہوں گے اور جو چیز انسان کے لئے عذاب کا سبب ہوگی وہ بھی انسان کے اعمال ہوں گے-

يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذَٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيِّئَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
” اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ روز محشر کے لیے تمھیں اکٹھا کرے گا۔ وہی درحقیقت ہار جیت کا دن ہو گا اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُن کے گناہ وہ (اُس دن) اُن سے جھاڑ دے گا اور اُنھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ بڑی کامیابی یہی ہے”

اہل جنت اور اہل جہنم کی جو گفتگو قرآن میں مختلف مقامات پر آئی ہے اس میں بھی وہ اپنے ان اعمال کا ذکر کرتے ہیں جو دنیا میں انسان نے کئے, لہذا جب اہل جہنم کو یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ اعمال ہی حقیقت میں نجات کا ذریعہ ہیں تو وہ خدا سے عمل کرنے کے لئے مہلت مانگے گیں

وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
“وہ اُس میں چلائیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کو نکال لے، اب ہم نیک عمل کریں گے، ویسے نہیں جیسے ہم (اِس سے پہلے) کیا کرتے تھے” کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہ دی تھی کہ جو یاددہانی حاصل کرنا چاہے،وہ اُس میں یاددہانی حاصل کر سکتا تھا اور تمھارے پاس (خدا کی طرف سے) خبردار کرنے والا بھی آ گیا تھا؟ سو اب چکھو اپنے کیے کا مزہ کہ ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے”

اسی طرح اہل جنت کے تعلق سے کہا

كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ
“کھاؤ اور پیو، بے غل و غش، اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے دنوں میں کیے”

قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے, دنیا کو نظرانداز کرنا درحقیقت آخرت کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے, دنیا میں انسان کا اٹھنے والا ہر قدم یا تو اسے جنت کے قریب کرتا ہے یا جہنم کے-

دنیا کو آخرت کی کھیتی بھی کہا گیا ہے کیونکہ انسان یہاں جس طرح کے اعمال کی کھیتی کرتا ہے آخرت میں اسی طرح کا صلہ اسے ملتا ہے, انسان اپنے اعمال صالحہ, محبت کی کھیتی, پیغام امن, ہمدردی, صلہ رحمی اور عمدہ اخلاق کے ذریعہ جنت میں پھل پھول اور میووں سے لدے باغات تیار کر ہا ہے ٹھنڈے راحت بخش پانی کی نہریں اور بلند محل کی تعمیر کر رہا ہے, یا اپنے برے اعمال کے ذریعے آگ کے شعلے جمع کر رہا ہے, نفرت کی زبان سے گرم و مسموم ہوائوں سے بھری جہنم بھڑکا رہا ہے, بد زبانی سے کڑوے کسیلے پھل اور جھاڑیاں اگا رہا ہے, انسانیت پر جبر ظلم اور حقوق کی پامالی کے ذریعے خون و پیپ کے دریا اور کھولتے ہوئے پانی کے جھرنے تیار کر رہا ہے-

قرآن نے بہت صاف طور پر انسان کو عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ جنت کی نعمتیں ہوں یا جہنم کے انگارے در حقیقت انسان دنیا سے اپنے ساتھ لے کر جاتا ہے–

علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے کہا ہے

اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگار ساتھ لاتے ہیں

ہماری یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کی اس صدا کو سنے. اس پیغام کو سمجھیں- اپنی زندگی اور اعمال کو قرآن سے ہم آہنگ کریں تا کہ آخرت میں حسرت اور مایوسی سے بچ جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!