شفیق احمد کلیم: ملی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والا غازی نہیں رہا
محمدیوسف رحیم بیدری، کرناٹک موبائل:9845628595
زندگی ساتھ تیرے گرہم ہیں
موت کاسامنابھی ممکن ہے
میرؔبیدری
موت کاسامناہوااور شفیق احمد کلیم 15/جنوری 2024ء کواپنے آخری سفر پر روانہ ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بیدر ایک چھوٹا ساتاریخی شہر ہے۔مسلمانوں کے آباء واجداد یعنی میرے اور شفیق احمد کلیم کے آباء واجداد نے اس شہرمیں اپنی حکمرانی کے یادگارنقوش چھوڑے ہیں اور اسی چھوٹے سے شہر میں رہتے ہوئے ہم دونوں کی ملاقات ہوئے عرصہ گزرا۔ مجھے یادنہیں پڑتاکہ ہماری آخری ملاقات کب ہوئی۔ عموماً لکھنے پڑھنے والے لوگ پہلی ملاقاتیں یاد رکھتے ہیں۔میری کمزوری ہے کہ میں پہلی ملاقات بھول جاتاہوں۔اوراب شفیق احمدکلیم سے ہوئی آخری ملاقات یاد کررہاہوں تو وہ یاد نہیں آرہی ہے ؎
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
فراق گورکھپوری
لوگ روزانہ پید اہوتے ہیں اور ہفتہ پندرہ دن میں کسی نہ کسی بزرگ مرد یا خاتون اور نوجوان کے انتقال کی خبر آہی جاتی ہے۔دنیا سے جانے والے ہر شخص کے لئے مضامین اورمرثیے نہیں لکھے جاتے۔ماناکہ جانے والے اپنے وارثین اور لواحقین کے لئے سب کچھ ہوتے ہیں تاہم یہ فطری سوال اٹھتاہے کہ سماج کی تعمیر وترقی کے لئے انھوں نے اپنا کتناحصہ اداکیا؟ملک وملت کوصحیح رخ پر لے جانے میں اپناوقت اور کتنی توانائی صرف کی؟اور اگردینی نقطہء نظر سے بات کی جائے تو بحیثیت مسلمان انھوں نے دین کی تبلیغ واشاعت کے لئے اور دین کی اقامت کے لئے کیاکچھ کیا؟اسی حوالے سے جب میں شفیق احمدکلیم کو دیکھتاہوں تو محسوس ہوتاہے کہ وہ ایک دل ِ دردمند رکھتے تھے۔ صوفی ٹائپ نوجوان تھے۔ چہرے پرداڑھی ہمیشہ ہی دیکھی گئی۔ نماز کاوقت ہوا فوراً نمازاداکرنے چلے گئے۔ شعراء کی خدمت کرنا ہے فوری اٹھ کھڑے ہوئے۔ والد محترم اور بزرگ شاعر جناب نثاراحمدکلیم مرحوم نے کوئی حکم دِیااس حکم کو بجالانے فوری تیزی دکھائی۔ گھرپر دعوت رکھ دی۔ دوست یار سے کبھی فاصلہ نہیں رکھا۔ دستر خوان بچھایاتو سبھی کو بلالیا۔ کہاجاتاہے کہ سفر کرنے والوں کے گھر اور مال ومنال میں برکت ہوتی ہے۔ سفروسیلہ ء ظفر اسی لئے تو کہاجاتاہے۔
والد ہی کی طرح سفر میں رہاکرتے تھے۔ مانوجیسے سفرکرنا ان کا خاندانی پیشہ ہو۔جب آتش جوان تھاتو سیاست میں بھی معاون بن کرکام کرتے رہے. *نثاراحمد کلیم صاحب کے جنتا پارٹی میں سرگرم ہونے، اہلیہ کے کونسلر بننے سے لے کر مرحوم سید ذوالفقار ہاشمی کے رکن اسمبلی منتخب ہونے اور جنا ب رحیم خان کے پہلی دفعہ رکن اسمبلی بننے اور بعد کے ادوار میں بھی ان کی حیثیت ایک معاون ہی کی رہی
وہ قیادت کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے تھے۔ سبھی کی معاونت کرنااپنی زندگی کااصول بنارکھاتھا۔
سیاست کو بڑی حدتک جانتے اور ایک عام آدمی کی طرح سیاست کوبرتتے تھے اس لئے صحافت سے بھی قریب تھے۔ خصوصاً اردو صحافت سے ان کی قربت ظاہر وباہر تھی۔ 14-15سال قبل انھوں نے سائبر کیفے کاکاروبار مسجد الٰہی کے سامنے واقع حلوائی کامپلکس میں شروع کررکھاتھا۔ اس وقت خبریں زیادہ تر فیکس سے بھیجی جاتی تھیں اورکبھی کبھی ای میل بھی کی جاتی تھیں۔ بیدر کے اردو صحافیوں سے ان کارویہ کس قسم کاتھامیں زیادہ نہیں جانتا لیکن میں نے جب کبھی ان کے سائبر کیفے پر حاضری دی وہ سب سے پہلے سسٹم میرے حوالے کردیتے تھے۔اگر گاہک زیادہ ہوں تو اپنے والے سسٹم کو پیش کرنا ان کے اخلاق اورشفقت کو ظاہر کرتاتھا۔ اسی طرح فیکس کی مفت سہولت بھی ان کے ہاں خاکسار کو ملاکرتی تھی۔
گذشتہ 12-15سال سے انجمن خادم الحجاج کے خازن کی حیثیت سے حاجیوں کی خدمت کیلئے رضاکارانہ طورپرخدمت بخوشی ا نجام دیتے رہے۔ عازمین حج کے پاسپورٹ بنوانا، اس کے لئے بنگلورجانا، عازمین حج کے فارم بنگلور میں جمع کرآنا، عازمین حج کو حیدرآباد اور بنگلوروہوائی اڈوں پرچھوڑنا اور وہاں سے لے آنا، پھر اس سے متعلق دیگر امور میں وہ ہمیشہ ہی سرگرم دیکھے گئے۔گھر کی فکر سے زیادہ عازمین حج کی فکرتھی۔ ان ہی کی خدمت میں لگے رہتے تھے ؎
توفیق اپناکام مگر کرگئی تھی میرؔ
آوارگی سے بچ گئے، بندے بنے کئی
اپنے والدمرحوم نثاراحمد کلیم کی طرح وہ کوئی مقرر نہیں تھے لیکن ایک اچھے اور سچے ملی کارکن تھے۔ بے لوث خدمت ان کامطمح ء نظر ہوتا۔ کئی ایک باتیں ان کے تعلق سے معاشرے میں کہی جاتیں لیکن انہیں سن کروہ کبھی غصہ نہیں ہوئے۔ پوچھتے ضرور تھے کہ کون کیاکہہ رہاہے اور ملنے والی اطلاع پر کسی شریف اور بے ضرر آدمی کی طرح ری ایکٹ کرتے۔ سازشیں کرنا، ان سازشوں کو اختتام تک پہنچاناانھوں نے سیکھاہی نہیں تھا۔کسی شاعر نے کیاخوب کہاہے ؎
فلک پرکوئی ساز ش ہورہی ہے
سمندر پر ہی بارش ہورہی ہے
ہٹائے جارہے ہیں کام کے لوگ
نکموں پر نوازش ہورہی ہے
برائی چل رہی ہے پیٹھ پیچھے
مگر منہ پر ستائش ہورہی ہے
شفیق احمد کلیم کوان سب چیزوں سے لینا دینانہیں تھا۔ اس کاشکویٰ بھی نہیں کرتے تھے۔ زمانہ کی ناقدری کا رونا انھوں نے کبھی نہیں رویا۔تاہم وہ اپنے مرحوم والد نثاراحمد کلیم کی بڑی عزت کیاکرتے تھے۔ ان کے احترام میں کمی آنے نہ دیتے۔ جتنی کتابیں ان کے والد کی شائع ہوئیں اور اس کے رسم ِاجراء پر جو بڑے بڑے ادبی پروگرام اور کل ہند مشاعرے ہوئے، ان تمام کے منتظم شفیق احمد کلیم ہی ہواکرتے تھے۔ ان جلسوں کے ذریعہ والدمرحوم کا پیغام یہی تھاکہ
”مسلمانوں کوسمجھ لیناچاہیے کہ دنیا کاکوئی نظریہ، کوئی فلسفہ، کوئی پالیسی مسلمانوں کے کام نہیں آئے گی۔ زندہ قوموں کی کامیابی کے لئے سراپا رحمت محمد رسول اللہ ﷺ کے اسوہء حسنہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے“ مرحوم نے مسائل کے بارے میں لکھاتھا”ہمارے مسائل کے تعلق سے ہمیں سوچناچاہیے کہ ہم کون تھے اورکہاں تھے اور اب کیاہیں اور کیاہوں گے؟ہمارے سیاسی رہنماہوں یا مذہبی رہنماہوں، اس سمت توجہ دلانا ضروری سمجھتاہوں کہ یہ زمانہ نہ مناظرے کاہے اور نہ ہی مجادلے کا۔ یہ مکالمہ کادور ہے“
والد مرحوم نثاراحمدکلیم کی بات پر شفیق احمد کلیم عامل تھے۔ ویسے شفیق احمدکلیم کاحلقہ ء احباب بہت وسیع رہا،زندگی کے مختلف میدانوں سے وابستہ افراد ان کے دوست تھے اور اپنی کل 56سالہ زندگی گزارنے کے لئے قسمت نے انہیں کئی ایک کاروبار سے جوڑے رکھاگویا زندگی ایک جہد مسلسل سے عبارت تھی، اس کے باوجودمزاج میں چڑچڑاپن نام کونہیں تھا۔ پان کھاتے،سگریٹ پیتے لیکن بڑی بات نہیں کرتے تھے۔مقروض بھی رہے، مگر حوصلوں کو پست نہیں رکھا۔ ان تمام سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ جب کبھی ملت کے کام کے لئے پکار اگیا، آواز دی گئی وہ اپنی دل کی پوری آمادگی کے ساتھ حاضررہے۔
بیدر اُتسو کے مشاعروں میں وقت دیاکرتے تھے۔ شعرائے کرام کو حیدرآباد ائرپورٹ سے لے آنا۔ بید رکی ہوٹلوں یا گیسٹ ہاوز میں ان کی خدمت کرتے رہنے میں وہ ایک طرح کی مسرت محسوس کرتے تھے۔ سماجی کام میں مجھ جیسے کمزور شخص کاانھوں نے ساتھ دیا۔ خود کو تفویض کردہ اپناکوئی ملی کام وہ دوسروں کے حوالے نہیں کرتے تھے۔فرد، تنظیم یاکام کو راستے میں چھوڑجانا انہیں نہیں آتاتھا۔ کام کوپایہ ء تکمیل تک پہنچانے کامزاج غالباً والدہ مرحومہ کی جانب سے آیاہوگا۔
شفیق احمدکلیم کئی ایک حادثوں سے گزرے۔ ڈاکٹر انجم شکیل احمد نے کہاتھا ؎
کیا کیا خوشی مسرت، غم کے تھپیڑے، آنسو
قسمت میں اک جاں کی، کیاکیا خدالکھاہے
شفیق احمد کلیم کی اہلیہ اسماء انجم نے ان کاساتھ زندگی کا ایک بہترین ساتھی بن کر دیا۔ ہرایک حادثیکے موقع پر ان کی اہلیہ ان کا دست وبازوبنی رہیں۔ کاروبار بڑھانے کی سوچی گئی تو وہ حاضر رہیں بلکہ خود آگے بڑھ کر کاروبار میں ان کادایاں ہاتھ بنی رہیں۔ فالج کاحملہ ہواتو وہ حوصلہ مندی کے ساتھ شانہ بشانہ ساتھ رہیں۔ مالی مسائل سامنے آئے تو انھیں حل کرنے کی کوشش میں لگی رہیں۔ گزشتہ تین چار سال قبل فیکٹری لگائی تو وہ بھی ایک مضبوط ستون بن گئیں۔ بچوں کامستقبل بنانے میں شوہر نامدار کی رائے سے اتفاق کرتی رہیں یعنی شفیق احمد کلیم کی زندگی میں ان کی اہلیہ، شفیق احمدکے دونوں بڑے بھائیوں سعید احمد اور رفیق احمد کی طرح ہمیشہ ڈھال بن کرکھڑی رہیں۔ آج جب کہ شفیق احمد کلیم اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہیں تو محسوس ہوتاہے کہ شاید اہلیہ چوک گئی تھیں اسلئے ایساہوا۔ ورنہ اس سے قبل شفیق احمد کلیم مرض سے گزرے اورموت کاہیولہ بھی دیکھا مگر جب کسی انسان کا وقت ِ آخرپوری طرح سامنے آجاتاہے تواس کی مخالفت میں کوئی ساتھ نہیں دے سکتا، یہی کچھ شفیق احمد کلیم کے ساتھ ہوا۔
کل رات جب میں نے سراج الحسن شادمان کی معیت میں شفیق احمد کلیم کے اسی گھر میں جہاں وہ ہماری ضیافت کئی دفعہ کرچکے تھے۔اوراسی کے لان میں انھیں لیٹے ہوئے دیکھااور سر سے چادر ہٹائی تو محسوس ہواکہ شفیق احمد کلیم آرام فرمارہے ہیں۔چہرے پر تھکن کے آثا ربھی نہیں تھے۔ گویا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ دنیا سے جانا ہمارے لئے مسئلہ ہوسکتاہے لیکن شفیق احمد کلیم کاچہرابتارہاتھاکہ وقت ِ آخر کوئی مسئلہ نہیں رہا، رب کریم نے کرم کیا، مہربانی فرمائی اور شفیق چلے گئے۔ انھوں نے اپنادنیاوی سفر مکمل کرلیا اور اُخروی سفر کے لئے نکل پڑے ہیں۔تومیرؔبیدری کایہ شعر یادآرہاہے، پتہ نہیں شاعرنے کس معاملے میں شعر کہاہوگالیکن یہاں موزوں دکھائی دے رہاہے ؎
اس سفر کے بعد اگلا ہے سفر
اس سے بڑھیا کوئی رستہ ہی نہیں
اللہ تعالیٰ شفیق احمد کلیم کے گناہوں اور خطاؤں کو معاف فرمائے،ملت کی سربلندی کے لئے ان کی جانب سے کی گئی خدمات کو اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت سے نوازے۔ جنت الفردوس عطاکرے۔ ان کی اہلیہ، دونوں لڑکیوں اور لڑکے کے علاوہ بھائیوں، بھابیوں، بھانجے بھانجیوں، بھتیجے بھتیجیوں، سالے سالیوں، ہم زلف اوردیگرلواحقین کوصبر جمیل عطافرمائے۔آمین