حالاتِ حاضرہمضامین

لِیو اِن پَارٹنر، لَو جِہاد اور قتل

مرزا انور بیگ میرا روڈ ۔ تھانہ

لیو ان پارٹنر کے قتل کے معاملات روز بروز سامنے آ رہے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان جرائم میں مذہب کو تلاش کرکے اسے ہندو مسلم اور لو جہاد تک پہنچا کر اپنے نفس کی تسکین کرنے والا میڈیا اور معاشرہ اس کے اصلی اسباب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ دن بہ دن اس قسم کی وارداتیں سامنے آتی ہیں ۔ کہیں لڑکی اپنی زندگی سے ہاتھ دھوتی ہے تو کہیں کہیں لڑکا جان گنوا دیتا ہے یا جان لے لی جاتی ہے ۔ ابھی فوری طور پر ممبئی کے مضافاتی علاقے میرا روڈ میں اس قسم کا واقعہ پیش آیا جس میں چھپن سال کے عمر دراز شخص نے اپنے ساتھ رہنے والی عورت کا قتل کر دیا اور لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے تیرہ سے زیادہ ٹکڑے کر کے کچھ تو کتوں کو کھلا دیے باقی کو ٹھکانے لگانے کی فراق میں تھا مگر اس سے پہلے یہ راز فاش ہو گیا اور وہ گرفتار کر لیا گیا۔

اس سے قبل نوائیڈا کے علاقے میں آفتاب نامی جوان نے بھی اپنے ساتھ رہنے والی لڑکی کو قتل کر کے اس کے چھتیس ٹکڑے کیے تھے اور دھیرے دھیرے جنگل میں ان ٹکڑوں کو پھینکتا رہا ۔ اس واردات کو ہندو مسلم کا رنگ دیا گیا اور گودی میڈیا زور شور سے اسے لو جہاد کے نام سے دن رات بریکنگ نیوز اور پرائم ٹائم کے شوز میں ٹی آر پی بٹورتی نظر آئی ۔ کبھی کوئی ساحل نام کا لڑکا کسی لڑکی کا قتل کرتا ہے تو کبھی انکیت کسی لڑکی کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔

یہ سب کیا کسی خاص مذہب کے ماننے والے افراد کر رہے ہیں یا کسی سازش کے تحت ہو رہا ہے اس پر اپنی توانائی خرچ کرنے کے بجائے ضروری یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور ایسی واردات انجام دینے والے کس قسم کی نفسیات کے لوگ ہیں اس پر بحث ہونا ضروری ہے مگر ہمارے میڈیا کو اس سے ٹی آر پی حاصل نہیں ہوتی اس لیے وہ اس فضول کی بحث میں نہیں پڑتا ۔ اسے تو کسی نہ کسی طرح لو جہاد کا پہلو تلاش کرنا ہوتا ہے ۔

ہمارے ملکِ عزیز کے باشندوں نے جب سے مغربی تہذیب کی جنت کو دیکھا ہے وہ بھی اسی کے حصول میں چل پڑی ہے اور آزادانہ رلیشن شپ گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے چسکے کے بعد بغیر کوئی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے میاں بیوی کی طرح ساتھ میں رہنے کی تہذیب جس میں نہ بچے پیدا کرنے کی ضرورت اور نہ ان کی پرورش و پرداخت کا جھنجھٹ ، بس جب تک دل چاہے ساتھ میں رہیں ، جب چاہیں یہ ساتھ بدل دیں ۔ اس طرح آزاد جنسی تعلقات نے معاشرے کی عزت نفس کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ کس قسم کے ہیں وہ والدین جو اپنی بیٹی کو غیر مرد کے ساتھ رہنے اور سونے پر بھی شرم محسوس نہیں کرتے ؟ کیسے ہیں وہ بھائی جو اپنی بہن کو غیر مرد کے ساتھ بدل بدل کر سوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کی غیرت نہیں جاگتی ؟ مگر اب چونکہ معاشرہ میں یہ سب فیشن بنتا جا رہا ہے اور وہ والدین اور بھائی بھی یہی کچھ کر رہے ہیں اس لیے ان کے نزدیک یہ سب معمول کے مطابق ہے ۔ پھر جب قتل ہو جاتا ہے تو شور و ہنگامہ کیوں ؟

جو لوگ جھوٹے پروپیگنڈا کر کے لو جہاد لو جہاد چلا چلا کر گلے پھاڑتے ہیں اور ہندو مسلمان کے درمیان نفرت پھیلاتے ہیں جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لو جہاد کے معاملے صفر ہیں اور یہ بات پارلیمنٹ و اسمبلی تک میں واضح ہو چکی ہے کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے حقیقت سے لو جہاد کا کوئی واسطہ نہیں ہے پھر بھی نفرت کا بازار لو جہاد پر گرم ہے ۔ لو جہاد سے توجہ ہٹا کر اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے جو معاشرہ میں آزادانہ لڑکے لڑکیوں کا اختلاط ہے اور گرل فرینڈ بوائے فرینڈ اور لیو ان پارٹنر کی صورت میں بے راہ روی کا چلن ہے اسی سے قتل اغوا اور دیگر جرائم بڑھ رہے ہیں ۔ اس بیماری میں کسی ایک مذہب کے افراد ملوث نہیں ہیں بلکہ تقریباً ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں ۔ لہٰذا اس میں مذہب کا زاویہ تلاش کرنے کے بجائے اس جانب توجہ درکار ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!