ٹاپ اسٹوری

بھارت میں کہاں کے لوگ سب سے زیادہ خوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں؟

ریاست میزورم صد فیصد خواندگی والی بھارت کی دوسری ریاست ہے، جہاں انتہائی مشکل حالات میں بھی طلبہ کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ جہاں اساتذہ طلبہ کے بہترین دوست ہوتے ہیں۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست میزورم میں ملک کے سب سے خوش و خرم لوگ رہتے ہیں۔ دہلی سے متصل گروگرام کے ایک ادارے ‘مینجمنٹ ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ’ میں شعبہ حکمت عملی کے پروفیسر راجیش کے پیلانیہ نے ریسرچ کے بعد اپنی تحقیقات شائع کی ہیں۔

جنوبی ریاست کیرالا کے بعد میزورم ملک کی ایسی دوسری ریاست ہے جہاں 100 فیصد خواندگی کا ہدف بھی حاصل کیا جا چکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق میزورم میں تحقیق کے دوران خوش رہنے کے پیمانے میں، ”خاندانی تعلقات، کام سے متعلق مسائل، سماجی مسائل، انسان دوستی، مذہب، کووڈ انیس کے اثرات، اور جسمانی و ذہنی صحت جیسے چھ اہم عوامل کو شامل کیا گیا تھا۔”

اساتذہ و طلبہ میں بہتر تعلقات

رپورٹ میں میزورم کے دارالحکومت آیزول کے ایک سرکاری ہائی اسکول کے ایک طالب علم کا بیان نقل کیا گیا ہے، جو تمام مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود زندگی سے خوش تھا۔ رپورٹ کے مطابق ”کم عمری میں ہی اس کے والد گھر چھوڑ کر چلے گئے، اس کے باوجود، وہ پرامید رہتا ہے اور اپنی پڑھائی میں سب پر سبقت لے جاتا ہے۔ اسے امید ہے کہ وہ اپنی تعلیم میں مزید آگے بڑھے گا اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا سول سروسز کے امتحانات میں کامیابی بھی حاصل کرے گا۔”

اسی طرح 10ویں جماعت کے ایک طالب علم کے والد دودھ کے کارخانے میں کام کرتے ہیں اور اس کی ماں گھریلو ملازمہ ہے۔ تاہم یہ، ”دونوں اپنے اسکول کی وجہ سے اپنے زندگی کے امکانات کے بارے میں بہت پر امید ہیں۔”

ایک طالب کا کہنا تھا، ”ہمارے اساتذہ ہمارے بہترین دوست ہیں، ہم ان کے ساتھ کچھ بھی شیئر کرنے سے خوفزدہ یا شرمندہ نہیں ہوتے۔” واضح رہے کہ میزورم میں اساتذہ طلباء اور ان کے والدین سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کرتے ہیں تاکہ انہیں درپیش مسائل کو حل کیا جا سکے۔

معاشرے کا کردار

میزورم کا سماجی ڈھانچہ بھی اس طرح کا ہے کہ نوجوانوں کو خوش رکھنے میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک نجی اسکول کی استانی سسٹر لالرینماوی کھیانگٹے کا کہنا ہے، ”یہ پرورش ہی نوجوانوں کے خوش رہنے یا نہ رہنے میں اضافہ کرتی ہے، ہم ذات پات سے پاک ایک معاشرہ ہیں۔ اس کے علاوہ، یہاں پڑھائی کے لیے بچوں پر والدین کا دباؤ بھی کم رہتا ہے۔”

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ میزو کمیونٹی کا ہر بچہ، چاہے وہ کسی بھی جنس سے ہو، جلد کمانا بھی شروع کر دیتا ہے۔ ٹیچر کا مزید کہنا تھا کہ یہاں: ”کسی بھی کام کو بہت چھوٹا نہیں سمجھا جاتا اور نوجوانوں کو عام طور پر 16 یا 17 سال کی عمر میں ہی ملازمت مل جاتی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے، اور لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان بھی کوئی تفریق نہیں کی جاتی ہے۔”

میزورم میں ٹوٹے پھوٹے خاندانوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، تاہم ایسے سخت حالات میں بھی بیشتر مائیں کام کرتی ہیں اور کم عمری میں ہی مالی آزادی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بچوں کو محرومی کا شکار نہیں ہونے دیا جاتا ہے۔

سسٹر لالرینماوی کھیانگٹے کہتی ہیں، ”جب دونوں لڑکوں اور لڑکیوں، دونوں کو اپنی روزی روٹی کمانے کا ہنر سکھایا جاتا ہے، اور دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے پر منحصر نہیں ہوتا، تو پھر ایک جوڑا غیر صحت مند ماحول میں رہنے پر مجبور بھی نہیں ہوتا ہے۔” (بشکریه: ڈی ڈبلیو)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!