حالاتِ حاضرہسماجیمضامین

آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے۔۔۔

ملک گیر سطح پر جب حالات کا رخ تسلسل کے ساتھ ایک خاص سمت میں بہنے لگا ہے اور ایسے موقع پر اسلامی تہذیب،مسلم شناخت اور مسلم تشخص کا مسئلہ درپیش ہے  اور مسلم قوم کے نام نہاد سیاسی رہنما منہ بند کئے بیٹھے ہیں حالیہ دنوں میں مسلم مینارٹیز کے خلاف فسطائیت کے ظالمانہ سلوک تیزی سے بڑھ رہے ہیں  بالخصوص موجودہ سی ایم بی ایس بمّیی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی دیکھی جانے لگی ہے. کچھ دن قبل بنگلور ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 5 کی مسجد کو بند کردیا گیا، اور حجاب و لباس کا معاملہ بھی تو نفرت اور تیزی سے پھیل رہی ہے۔

سب سے پہلے اڈپی میں حجاب پہننے کی وجہ سے مسلم طالبات کو اسکول سے باہر نکالا گیا،اور نفرت کی یہ لہر اڈپی ہوتے ہوئے اور علاقوں میں پہنچ گئی کنداپور، بیلگاوی اور بھدراوتی میں حجاب پہننے کی بناء پر مسلم طالبات پر اسکول اور  کالج کے دروازے بند کر دۓ گئے۔   

افسوس کی بات یہ رہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف فسطائیت کا رویہ دیکھتے ہوے ہمارے مسلم رہنما خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جبکہ ریاستی  اسمبلی میں کل سات 7 منتخب مسلم سیاستدان ہیں۔ 

1)این اے حارث، شانتی نگر constituency سے 2008، 2013 اور 2018 میں لگاتار سہ مرتبہ منتخب ہوکر MLA بنے ہیں 2)رحیم خان بیدر کے علاقے سے منتخب ہوکر MLA بنے اور ساتھ ہی  Minister state for youth empowerment and sports بھی رہے۔

3) ضمیر احمد خان  کرناٹک کی سیاست میں آپ کا کافی دبدبہ ہے 2018 میں آپ MLA منتخب ہوے اور اس وقت سے اخبارات کی سرخیوں میں رہے۔ 
4) رضوان ارشد شیواجی نگر سے 2019 میں بال پولس (by polls) میں کامیابی حاصل کرکے MLA  منتخب ہوے۔

5) یوٹی عبدالقادر منگلورو سے ایم ایل اے منتخب ہوے اور ساتھ ہی کیبنٹ منسٹر رہے۔ 
6)تنویر سیٹھ کانگریس پارٹی کی جانب سے 2018 میں ایم ایل اے بنے اور ساتھ ہی chairman of the Karnataka minorities development corporation اور minorities waqf board کے ذمہ دار رہے۔
7)کنیز فاطمہ  کلبرگی نارتھ سے آپ ایم ایل اے منتخب ہوئیں۔

مذکورہ بالا شخصیات وہ سیاستدان ہیں جو مسلم ووٹ حاصل کرکے ریاست کی اسمبلی میں جا بیٹھے ہیں لیکن جب مسلم شناخت کے تحفظ کی بات آئی ہے تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ان میں صرف کنیز فاطمہ  ایک ایسی ایم ایل اے ہیں جنہوں نے مسلم باحجاب طالبات کے ساتھ اختیار کے گۓ رویہ پر کلبرگی میں احتجاجی مظاہرے کیے اور ہزاروں خواتین و افراد پر مشتمل مجموعہ کو لیڈ بھی کیا۔

SDPI، پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے بھی پریس کانفرنس کے ذریعے کرناٹک میں ہورہے ان واقعات کی مذمت کی۔مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ ممبر آف لیجسلیٹو کونسل (MLC) میں بھی سلیم احمد(INC)، کے نصیر احمد(INC)، سی ایم ابراہیم (INC)، اور بی ایم فاروق(JDS) بھی ہیں لیکن انکی جانب سے بھی کوئی احتجاجی مظاہرہ نہیں دیکھا گیا اپنے سیاسی جماعت کے مفاد اور اپنی کرسی اور پگڑی بچانے کے چکر میں آنکھوں اور منہ پر پٹی باندھ لی ہے۔

جبکہ سورپور میں بھاجپا کے ایم ایل اے راجیو گوڈا (Rajiv gauda) نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیا ہی بہترین بات کہی “ہمیں یہ نہیں معلوم کے سرکاری اسکول کتنے ہیں تعلیمی حالت کیا ہے، اس کی فکر کیجیے اسے چھوڑ کر وہ کیا لباس پہن رہا ہے ہم کیا پہن رہے ہیں اس پر کیوں لڑیں۔ ہم لباس پر لڑ رہے ہیں، یہ ہمارا طریقہ نہیں ہے، ہندو مسلم ساتھ مل کر رہتے ہیں وہ ہم سے محبت کرتے ہیں ہم ان سے محبت کرتے ہیں”۔

کرناٹک میں مسلم  آبادی  7.8ملین ہے اور مسلم ووٹ شئیر %16 سے %18 تک  بنتاہے کرناٹک کے کئی علاقوں میں مسلم آبادی اکثریت پر مشتمل ہے، مسلم  ووٹس سے انتخابات میں کئی سیاسی رہنماؤں کو کامیابی ملتی ہے اور کئی علاقوں میں مسلم ووٹز فیصلہ کن رول ادا کرتے ہیںکرناٹک کے سیاسی میدان میں جب مسلم ووٹرز کی اتنی اہمیت ہے تو  ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارے ووٹ شئیر سے جو اقتدار پر آرہے ہیں، ایوان کی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ایسے موقع پر انکا اسٹانڈ  کیا ہے؟ کیا وہ مسلم ووٹ لیکر مسلم حق کی بات کرتے ہیں؟ یا پھر مسلم قوم کا ووٹ بنک کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟ 

اور ایک بات گرہ میں باندھ لیں اگر کوئی سیاسی لیڈر مسلم ووٹ حاصل کر کے مسلم حقوق کی تحفظ کے لئے آواز بلند نہیں کر سکتا، لڑ نہیں سکتا، ہمیں ہمارا حق نہیں دلا سکتا تو ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ دوبارہ ہم اسے ووٹ دیں،اوراسے ایم ایل اے بنا کر اسمبلی میں بھیجیں۔ ان حالیہ واقعات کے رونما ہونے اور ہمارے ووٹ حاصل کرنے والے سیاستدانوں کی چپی سادھ لینے کے باوجود بھی اگر ہم ہوش کے ناخن نہ لیں سوجھ بوجھ سے کام نہ لیں ، اور مسلم قوم صرف ایک ہی سیاسی جماعت اور ایسے ہی سیاستدانوں کے ساتھ جڑی رہے گی تو یہ  سیاسی جماعتیں اور لیڈران مسلم قوم کا استحصال کرتے رہیں گے  ایسے موقع سے ہی دیکھ لیں کون لوگ ہیں جو مسلم حق کی بات کرتے ہیں اور مسلم قوم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں ایسے رہنماؤں،سیاستدانوں اور ایسے ہی سیاسی جماعتوں کا  ساتھ دیں ۔ تاکہ بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل روشن و تابناک ہوسکے۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!